پچیس برس بعد بھارتی عدلیہ سے باعزت بری ہونے والے گیارہ افراد میں سے ایک ڈاکٹر اشفاق میر نے اپنا تلخ تجربہ بیان کیا ہے۔
اشفاق میر کو انہیں ان کے ساتھیوں سمیت مئی 1994 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے وہ اور ان کے ساتھی بلاسٹ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کے پاس سے ایسی کوئی بھی شئے برآمد نہیں کی گئی تھی جس سے پولس اور حکومت کے الزامات کو تقویت مل سکے اس لیے انھیں پچیس سال بعد بری کردیا گیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق میر نے جیل میں گزارے ہوئے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بے گناہوں کو گنہگار ثابت کرنے کے لیے پورا سسٹم تیّار رہتا ہے۔
انہونے کہا کہ اس دوران بھُساول کے بڑے بڑے رہنماؤں اور متعدد تحریکوں کے اکابرین نے انھیں دہشت گرد تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا تھا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کے جو لوگ پولس کسٹڈی کے باہر اس طرح کے اقبالیہ بیانات دے دیتے ہوں ان کا پولس کسٹڈی میں کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پولس کی مار، خوف کس دہشت کا نام ہے۔ہم تو اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ کسی حال پولس کسٹڈی میں نہ جانے پائیں۔
کچھ انہیں باتوں کے ساتھ اشفاق میر نے اپنے حالات بیان کیے۔