ETV Bharat / briefs

عالمی یوم خواتین پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی پیشکش - عالمی یوم خواتین

ترقی کو ہم اسی وقت مستحکم اور پائیدار بنا سکتے ہیں جب معاشرے میں مساوات ہو، جہاں خواتین کو تمام اختیارات حاصل ہوں، معاشرتی آداب کے ساتھ ان کی انفرادی آزادی، اور آزادی فکر کی حفاظت بھی۔

عالمی یوم خواتین
author img

By

Published : Mar 8, 2019, 7:35 AM IST

ایک مہذب معاشرہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے، اور مہذب معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم نسواں عام ہو، نیپولیئن بوناپارٹ نے کہا تھا 'اچھی مائیں ہی اپنے اولاد کی اچھی پرورش کرتی ہیں'۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تشکیل اس کے سماج پر منحصر ہو تی ہے، اگر معاشرے اور سماج کے افراد کامیاب و کامران ہوں گے تو اس سماج کی حالت بھی مستحکم اور مضبوط ہوگی۔

یہاں افراد سے مراد مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مگر آج ہم اس سماج و معاشر ے سے رو برو ہیں جہاں عورتوں کو با اختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے، کیوں کہ یہی وہ عنصر ہیں جو معاشرے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔ مشہور و معروف شہنشاہ نپو لین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ 'تم مجھے اچھی مائیں دو میں آپ کو اچھی اولاد دونگا'۔

یہاں اچھی ماں سے مراد تعلیم یافتہ اور با شعور ماں ہے، کیوں کہ ایک مہذب معاشرہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے، اور مہذب معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم نسواں عام ہو، کیوں کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جس معاشرہ میں تعلیم کا فقدان ہو گا تووہ معاشرہ پستی کی نظر ہو جائے گا، اس لیے دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی ان کا بنیادی حق ہے۔

undefined

جب ہم تعلیم یافتہ معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد یکساں طور پر مردوں کے ساتھ عورتوں کا شانہ بشانہ اور دوش بدوش ہونا ہوتا ہے۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

ایساخیال کیا جاتا ہے کہ ایک مرد کی تعلیم سے معاشرے میں ایک فرد ہی تعلیم یافتہ ہو تا ہے جبکہ ایک خاتون کے تعلیم یافتہ ہونے سے ایک عورت نہیں بلکہ پورا کنبہ تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے، اور شاید اسی لیے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ تسلیم کیا جاتا ہے، اگر ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو معاشرہ بدرجہ اولیٰ تعلیم یافتہ ہوگا۔

ماں کی گود کو دنیا کے تمام مفکرین اور ماہرین نے پہلا گہوارئے علم و ادب قرار دیا ہے۔کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس معاشرے میں خواتین کی شرح خواندگی صد فیصد ہو، اور شاید یہی وجہ تھی جب گاندھی جی افریقہ سے واپس آئے تو انہوں نے سب سے زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم پر دیا، اور مضامین بھی لکھے۔

مولانا آزاد نے گاندھی جی کے اس مشن کی پرزور تائید کی اور خود مشہور زما نہ اخبا ر 'الہلال' میں تعلیم نسواں سے متعلق مضامین شائع کیے۔

undefined

مدن موہن مالویہ اور سر سیداحمد خان نے بھی لڑکیوں کی تعلم سے متعلق کار ہائے نمایاں انجام دیے، وہ بھی اس وقت جب معاشرہ کو تعلیم نسواں قابل قبول نہ تھی۔

اس وقت لڑکیوں کو سماج میں بد نماں داغ سمجھاجاتا تھا، اور رحم مادر میں ہی ساکت رحم کرکے معاشرہ بچیوں کا قتل کا گنہ گار بنتا جارہا تھا۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

ایسے نازک دور میں گاندھی جی، مولانا آزاد، مدن موہن مالویہ، اور سرسید احمد خاں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لڑکیوں کی تعلیم ہی اس مرض کاعلاج ہے، کیوں کہ تعلیم کے بغیر معاشرہ کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔

تعلیم نسواں کی جدوجہد کا سلسلہ آج بھی قائم ہے، اسی ضمن میں سرکار نے اس سلسلہ کو 'بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ' جیسی تحریکیں شروع کر جلابخشا ہے۔

ملک کو آزاد ہوئے نصف سے زائد صدی گزرچکی ہے، اس کے باوجود جب بھی ہم تعلیمی منظر نامہ کا جائزہ لیتے ہیں اور محاسبہ کرتے ہیں خصوصاً تعلیم نسواں اور وہ بھی مسلم گھرانوں کا تو کچھ بڑے شہروں کو چھوڑ کر بڑی مایوسی اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے معاشرہ میں ایک منفی سوچ کا وجود بہت پہلے سے موجود ہے جو لڑکیوں کی تعلیم میں ایک ایسا رخنہ ہے جو معاشرہ میں ناسور بن کر پنپ رہا ہے۔

undefined

اس کے برعکس بھارت میں بہت سارے خاندان ایسے بھی ہیں جو لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کے متعلق نہایت سنجیدہ ہیں، اور دوسری قوموں کی طرح وہ بھی اپنی لڑکیوں کو با اختیار بنانے اور زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

اکیسویں صدی کے بھارت میں ہمیں ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو معیاری اور سود مند تعلیمی فضا کوقائم کر سکے، لہذٰا اخبار و رسائل اور ٹی وی چینل کے زیر اثر نئی نسل کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی طرف مائل ہو رہی ہیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے ملک کی عظیم ترین یونیورسٹیز مثلاً علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامیہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ جے این یو، ڈی یو، ایچ سی یو، بی ایچ یو اور عثمانیہ کے علاوہ بیرون ممالک کی اعلیٰ درسگاہوں کی تعلیم کی جانب اپنا رخ کررہی ہیں۔


لیکن ابھی بھی اِن کی تعدادبہت مختصر ہے، دور حاضر کے تناسب میں بھارت کے تمام خِطوں میں کیرالہ ہی ایسی ریاست ہے جہاں لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب یکساں ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کو ظلم و جہالت اور غلط رسم و رواج سے بچانا چاہتے ہیں تواس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم مرداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کو بھی فروغ دیں، تا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی اپنے خاندان پر بوجھ نہ بن سکیں۔کیوں کہ پلکیں آنکھوں پر بوجھ نہیں ہوا کرتیں۔

undefined

علامہ اقبال کے اس مصرعہ سے بھی یہ بات ظاہر ہے، وہ کہتے ہیں کہ
'وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ'

مختصر یہ کہ ترقی کی کنجی اور فلاح بہبود خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ ہے، کیوں کہ ہم ترقی کو اسی وقت مستحکم بناسکتے ہیں جب معاشرے میں مساوات ہو، وہ معاشرہ جہاں خواتین کو تمام اختیارات حاصل ہوں، معاشرتی آداب کے ساتھ ان کی انفرادی آزادی، اور آزاد فکر کی حفاظت بھی۔

میراج فیض آبادی نے کہا تھا کہ؎
خودکشی لکھی تھی ایک بیوہ کے چہرے پر مگر
پھر وہ زندہ ہوگئی بچہ بلکتا دیکھ کر
اکبر آلہ آبادی نے بھی اسی ضمن میں کہا کہ
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے وہ بے شعور ہے

ایک مہذب معاشرہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے، اور مہذب معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم نسواں عام ہو، نیپولیئن بوناپارٹ نے کہا تھا 'اچھی مائیں ہی اپنے اولاد کی اچھی پرورش کرتی ہیں'۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تشکیل اس کے سماج پر منحصر ہو تی ہے، اگر معاشرے اور سماج کے افراد کامیاب و کامران ہوں گے تو اس سماج کی حالت بھی مستحکم اور مضبوط ہوگی۔

یہاں افراد سے مراد مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مگر آج ہم اس سماج و معاشر ے سے رو برو ہیں جہاں عورتوں کو با اختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے، کیوں کہ یہی وہ عنصر ہیں جو معاشرے کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔ مشہور و معروف شہنشاہ نپو لین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ 'تم مجھے اچھی مائیں دو میں آپ کو اچھی اولاد دونگا'۔

یہاں اچھی ماں سے مراد تعلیم یافتہ اور با شعور ماں ہے، کیوں کہ ایک مہذب معاشرہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے، اور مہذب معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم نسواں عام ہو، کیوں کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جس معاشرہ میں تعلیم کا فقدان ہو گا تووہ معاشرہ پستی کی نظر ہو جائے گا، اس لیے دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی ان کا بنیادی حق ہے۔

undefined

جب ہم تعلیم یافتہ معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد یکساں طور پر مردوں کے ساتھ عورتوں کا شانہ بشانہ اور دوش بدوش ہونا ہوتا ہے۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

ایساخیال کیا جاتا ہے کہ ایک مرد کی تعلیم سے معاشرے میں ایک فرد ہی تعلیم یافتہ ہو تا ہے جبکہ ایک خاتون کے تعلیم یافتہ ہونے سے ایک عورت نہیں بلکہ پورا کنبہ تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے، اور شاید اسی لیے ماں کی گود کو پہلی درسگاہ تسلیم کیا جاتا ہے، اگر ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو معاشرہ بدرجہ اولیٰ تعلیم یافتہ ہوگا۔

ماں کی گود کو دنیا کے تمام مفکرین اور ماہرین نے پہلا گہوارئے علم و ادب قرار دیا ہے۔کسی بھی معاشرے کے مہذب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس معاشرے میں خواتین کی شرح خواندگی صد فیصد ہو، اور شاید یہی وجہ تھی جب گاندھی جی افریقہ سے واپس آئے تو انہوں نے سب سے زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم پر دیا، اور مضامین بھی لکھے۔

مولانا آزاد نے گاندھی جی کے اس مشن کی پرزور تائید کی اور خود مشہور زما نہ اخبا ر 'الہلال' میں تعلیم نسواں سے متعلق مضامین شائع کیے۔

undefined

مدن موہن مالویہ اور سر سیداحمد خان نے بھی لڑکیوں کی تعلم سے متعلق کار ہائے نمایاں انجام دیے، وہ بھی اس وقت جب معاشرہ کو تعلیم نسواں قابل قبول نہ تھی۔

اس وقت لڑکیوں کو سماج میں بد نماں داغ سمجھاجاتا تھا، اور رحم مادر میں ہی ساکت رحم کرکے معاشرہ بچیوں کا قتل کا گنہ گار بنتا جارہا تھا۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

ایسے نازک دور میں گاندھی جی، مولانا آزاد، مدن موہن مالویہ، اور سرسید احمد خاں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لڑکیوں کی تعلیم ہی اس مرض کاعلاج ہے، کیوں کہ تعلیم کے بغیر معاشرہ کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔

تعلیم نسواں کی جدوجہد کا سلسلہ آج بھی قائم ہے، اسی ضمن میں سرکار نے اس سلسلہ کو 'بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ' جیسی تحریکیں شروع کر جلابخشا ہے۔

ملک کو آزاد ہوئے نصف سے زائد صدی گزرچکی ہے، اس کے باوجود جب بھی ہم تعلیمی منظر نامہ کا جائزہ لیتے ہیں اور محاسبہ کرتے ہیں خصوصاً تعلیم نسواں اور وہ بھی مسلم گھرانوں کا تو کچھ بڑے شہروں کو چھوڑ کر بڑی مایوسی اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے معاشرہ میں ایک منفی سوچ کا وجود بہت پہلے سے موجود ہے جو لڑکیوں کی تعلیم میں ایک ایسا رخنہ ہے جو معاشرہ میں ناسور بن کر پنپ رہا ہے۔

undefined

اس کے برعکس بھارت میں بہت سارے خاندان ایسے بھی ہیں جو لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کے متعلق نہایت سنجیدہ ہیں، اور دوسری قوموں کی طرح وہ بھی اپنی لڑکیوں کو با اختیار بنانے اور زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

عالمی یوم خواتین
عالمی یوم خواتین

اکیسویں صدی کے بھارت میں ہمیں ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو معیاری اور سود مند تعلیمی فضا کوقائم کر سکے، لہذٰا اخبار و رسائل اور ٹی وی چینل کے زیر اثر نئی نسل کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی طرف مائل ہو رہی ہیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے ملک کی عظیم ترین یونیورسٹیز مثلاً علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامیہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ جے این یو، ڈی یو، ایچ سی یو، بی ایچ یو اور عثمانیہ کے علاوہ بیرون ممالک کی اعلیٰ درسگاہوں کی تعلیم کی جانب اپنا رخ کررہی ہیں۔


لیکن ابھی بھی اِن کی تعدادبہت مختصر ہے، دور حاضر کے تناسب میں بھارت کے تمام خِطوں میں کیرالہ ہی ایسی ریاست ہے جہاں لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب یکساں ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کو ظلم و جہالت اور غلط رسم و رواج سے بچانا چاہتے ہیں تواس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم مرداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کو بھی فروغ دیں، تا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی اپنے خاندان پر بوجھ نہ بن سکیں۔کیوں کہ پلکیں آنکھوں پر بوجھ نہیں ہوا کرتیں۔

undefined

علامہ اقبال کے اس مصرعہ سے بھی یہ بات ظاہر ہے، وہ کہتے ہیں کہ
'وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ'

مختصر یہ کہ ترقی کی کنجی اور فلاح بہبود خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ ہے، کیوں کہ ہم ترقی کو اسی وقت مستحکم بناسکتے ہیں جب معاشرے میں مساوات ہو، وہ معاشرہ جہاں خواتین کو تمام اختیارات حاصل ہوں، معاشرتی آداب کے ساتھ ان کی انفرادی آزادی، اور آزاد فکر کی حفاظت بھی۔

میراج فیض آبادی نے کہا تھا کہ؎
خودکشی لکھی تھی ایک بیوہ کے چہرے پر مگر
پھر وہ زندہ ہوگئی بچہ بلکتا دیکھ کر
اکبر آلہ آبادی نے بھی اسی ضمن میں کہا کہ
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے وہ بے شعور ہے

Intro:Body:

celebrating womens day and her education level


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.