بھاگلپور کی مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے ناتھ نگر میں واقع انصاری اردو لائبریری کا قیام آزادی سے قبل یعنی سنہ 1946 میں اس مقصد سے کیا گیا تھا کہ دن بھر کام کے بعد شام کے اوقات میں لوگ یہاں جمع ہوں اور کتب بینی سے استفادہ کریں اور اپنے علم کی پیاس بجھائیں۔ چند برس قبل تک یہاں مغرب بعد مطالعہ کرنے والوں کی کثیر تعداد ہوا کرتی تھی لیکن سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو اس قدر اپنی چپیٹ میں لے لیا کہ انہیں لائبریری میں آنے کی فرصت نہیں، اور اتنی بڑی لائبریری میں محض چند لوگ ہی نظر آتے ہیں۔
اس علاقے میں زیادہ تر لوگ بنکر مزدور ہیں، جو دن بھر پاور لوم چلاتے ہیں اور کپڑا بنتے ہیں، اس لئے یہ لائبریری مغرب کے بعد سے رات میں نو دس بجے تک کھلتی ہے۔ یہاں اردو کی میگزین، مجلے اور اخبارات منگائے جاتے ہیں۔ جس کا مقصد بچوں میں اردو کے تئیں شوق پیدا کرنا ہے، لیکن اب یہ میگزین اور رسالے الماریوں میں پڑے دھول کھارہے ہیں اور محض دو چار مدرسے کے بچے اور چند بزرگ ہی لائبریری سے استفادے کے لیے آتے ہیں۔ قارئین کی کمی کی وجہ سے فنڈ کی بھی دشواری ہے جس کی وجہ سے کتابوں کی دیکھ ریکھ بھی نہیں ہوپاتی ہے۔
اس لائبریری کی تاریخ بڑی شاندار رہی ہے، مجاہد آزادی خان عبد الغفار خان سے لے کر بہار کے سابق وزیر اعلئ بھاگوت جھا آزاد وغیرہ تک اس لائبریری میں تشریف لاچکے ہیں جن کے دوروں سے متعلق لکھے گئے حروف آج بھی موجود ہے
عمارت کی تعمیر کے لئے راجیہ سبھا کے سابق رکن علی انور نے بھی پانچ لاکھ کا عطیہ دیا تھا۔ لیکن موجوہ نسل لائبریری کی اہمیت سے بے بہرہ ور ہے اورسوشل میڈیا پر اپنے اوقات شان سے گزارتی ہے لیکن لائبریری کا رخ نہیں کرتی ہے، یہی وجہ ہے ممبران کی کمی کی وجہ سے لائبریری میں موجود کتابوں کو دیمک کھا رہے ہیں، اور تعلیم سے دوری کا مسلمانوں پر کس قدر اثر پڑ رہا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔