ETV Bharat / bharat

ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں - فلسطینیوں کے آبائی وطن کے امکانات کو مٹانے کی کوشش

اسرائیل ( یعنی یہودیوں )کی جانب سے زمانہ قدیم سے فلسطینیوں کو ان کی اپنی ہی سرزمین پر ہمیشہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسرائیل کو تمام ممالک نے اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کردیا تھا، تب فلسطین نے انسانی بنیادوں پر یہودیوں کو پناہ دی تھی۔ تاہم اب فلسطین کو اپنے ہی گھر میں رہنا مشکل ہوگیا ہے اور اسرائیل ان کو اپنے ہی گھروں سے بے دخل کررہا ہے، اور نازیوں کی جانب سے انہیں بار بار تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں
ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں
author img

By

Published : May 18, 2021, 8:40 AM IST

Updated : May 18, 2021, 9:00 AM IST

1948 سے اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے مٹانے اور فلسطینیوں کے آبائی وطن کے امکانات کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے شامی ماہر تعلیم کنسٹنٹائن زیورائک نے اسی سال "معناالناکبہ" (معنی تباہی ) کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ یہ 'تباہی' فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا تھا، جس کے بعد سے وہ اسرائیل کے اندر موجود فلسطینیوں کے لئے فرقہ وارانہ حالات، مشرقی یروشلم، غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کی زمین پر قبضے اور جلاوطنی میں جانے والے فلسطینیوں کی وطن واپسی کا انکار تھا۔ اپریل 2021 کے آخر میں، ہیومن رائٹس واچ ( نیویارک ) نے ایک اہم سرخی کے ساتھ ایک اہم رپورٹ شائع کی، جس کا نام تھریشہولڈ کراسڈ تھا۔ یعنی اسرائیلی حکام ' نسل پرستی، رنگ برداری اور ظلم و ستم و جرائم کے دلدادہ ہیں۔

مئی کے اواٸل میں اسرائیل نے فلسطینی خاندانوں کو غیر قانونی طور پر شیخ جرّح ( یروشلم ) میں گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ لبنانی ناول نگار الیاس خُوری نے اس عمل کو مسلسل نقبہ کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ یہ خاندان یروشلم کے اس حصے میں آباد تھے جہاں انہیں اسرائیلیوں نے گھروں سے بے دخل کردیا تھا اور اب انہیں دوبارہ ملک بدر کردیا جانا تھا۔

ان خاندانوں اور ان کے ہمسایوں نے نکلنے سے انکار کردیا۔ انھیں مزاحمت کرنے کا حق ہے، کیونکہ ان کی سرزمین کو اقوام متحدہ نے زیر قبضہ فلسطینی علاقہ کے نام سے منسوب کیا ہے، اس زمین کو جس پر قبضہ کرنے والا یعنی اسرائیل انتظام کرتا ہے لیکن اسے تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ جب فلسطینیوں نے مزاحمت کی تو انہیں صیہونی آباد کاروں اور اسرائیلی بارڈر پولیس کی طرف سے سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑا ، جو فلسطینیوں کو ذلیل کرنے کی پالیسی کے تحت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تھے۔

غزہ کے فلسطینیوں نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل اور صیہونیوں نے ان اشتعال انگیزی کو نہ روکا تو انہیں راکٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ حملوں کو روکنے کے لئے اسراٸیل باز نہیں آیا، غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے۔ راکٹ بربریت کو جواز فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ راکٹ ایک غیر قانونی قبضے کے بین الاقوامی قانون کے تعاون سے ایک مزاحمت کے حصے کے طور پر داغے گئے۔

اسرائیل نے انتہائی طاقت سے جوابی کارروائی کی، بچوں کو ہلاک کیا، شہری اہداف پر حملہ کیا اور میڈیا عمارت پر بمباری کی۔ 2006 کے بعد سے غزہ، دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپوں میں سے ایک کیمپ پر بمباری سے اسرائیل نے زیر قبضہ فلسطینی علاقہ کے انتظام کی مثال ہے۔ اقوام متحدہ خاموش ہے کیونکہ امریکی حکومت جنگ بندی کی قرارداد کی بھی اجازت سے انکار کرتی ہے۔ کوئی بھی عرب ریاست فلسطینیوں کے دفاع کے لئے اپنی فوجی طاقت استعمال کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، مصری فضائیہ کے لئے غزہ کے اوپر ایک نو فلائی زون فراہم کرنا آسان ہوگا۔

اسرائیل کی جانب نہتّے شہریوں پر فائرنگ اور میزائل حملے کرنا انسانیت کے خلاف ہے۔ جو فلسطینیوں کو ان کے وقار اور ان کے مزاحمت کے حق سے محروم کرتا ہے۔ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے اپنے وطن کے حق میں، ان کے گھر واپس جانے کے حق اور قبضے کے خلاف مزاحمت میں حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف خوفناک تشدد پر ہمارے ردِ عمل کی تشکیل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 (1960) کے مطالعہ سے ہوئی ہے، 'آزادی کا عمل ناقابلِ تلافی اور ناقابل واپسی ہے اور سنگین بحرانوں سے بچنے کے لئے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور اس سنگین بحرانوں سے بچنے کے لئے نوآبادیات اور اس سے وابستہ علاحدگی اور امتیاز کے تمام طریقوں کو ختم کرنا ہوگا۔

اس سلسلہ میں بھارت کی ممتاز شخصیتوں میں اعجاز احمد، اروندھتی رائے، گیتا ہری ہرن، محمد یوسف تاریگامی، نصیرالدین شاہ، نین تارا سہگل، پربھات پٹنائک، رتنا پاٹھک شاہ، سبھاشنی علی، سدھنوا دیش پانڈے اور وجے پرشاد نے مندرجہ بالا مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے فلسطین کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

1948 سے اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے مٹانے اور فلسطینیوں کے آبائی وطن کے امکانات کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے شامی ماہر تعلیم کنسٹنٹائن زیورائک نے اسی سال "معناالناکبہ" (معنی تباہی ) کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ یہ 'تباہی' فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا تھا، جس کے بعد سے وہ اسرائیل کے اندر موجود فلسطینیوں کے لئے فرقہ وارانہ حالات، مشرقی یروشلم، غزہ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کی زمین پر قبضے اور جلاوطنی میں جانے والے فلسطینیوں کی وطن واپسی کا انکار تھا۔ اپریل 2021 کے آخر میں، ہیومن رائٹس واچ ( نیویارک ) نے ایک اہم سرخی کے ساتھ ایک اہم رپورٹ شائع کی، جس کا نام تھریشہولڈ کراسڈ تھا۔ یعنی اسرائیلی حکام ' نسل پرستی، رنگ برداری اور ظلم و ستم و جرائم کے دلدادہ ہیں۔

مئی کے اواٸل میں اسرائیل نے فلسطینی خاندانوں کو غیر قانونی طور پر شیخ جرّح ( یروشلم ) میں گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ لبنانی ناول نگار الیاس خُوری نے اس عمل کو مسلسل نقبہ کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ یہ خاندان یروشلم کے اس حصے میں آباد تھے جہاں انہیں اسرائیلیوں نے گھروں سے بے دخل کردیا تھا اور اب انہیں دوبارہ ملک بدر کردیا جانا تھا۔

ان خاندانوں اور ان کے ہمسایوں نے نکلنے سے انکار کردیا۔ انھیں مزاحمت کرنے کا حق ہے، کیونکہ ان کی سرزمین کو اقوام متحدہ نے زیر قبضہ فلسطینی علاقہ کے نام سے منسوب کیا ہے، اس زمین کو جس پر قبضہ کرنے والا یعنی اسرائیل انتظام کرتا ہے لیکن اسے تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ جب فلسطینیوں نے مزاحمت کی تو انہیں صیہونی آباد کاروں اور اسرائیلی بارڈر پولیس کی طرف سے سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑا ، جو فلسطینیوں کو ذلیل کرنے کی پالیسی کے تحت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تھے۔

غزہ کے فلسطینیوں نے بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل اور صیہونیوں نے ان اشتعال انگیزی کو نہ روکا تو انہیں راکٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ حملوں کو روکنے کے لئے اسراٸیل باز نہیں آیا، غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے۔ راکٹ بربریت کو جواز فراہم نہیں کرسکتے۔ یہ راکٹ ایک غیر قانونی قبضے کے بین الاقوامی قانون کے تعاون سے ایک مزاحمت کے حصے کے طور پر داغے گئے۔

اسرائیل نے انتہائی طاقت سے جوابی کارروائی کی، بچوں کو ہلاک کیا، شہری اہداف پر حملہ کیا اور میڈیا عمارت پر بمباری کی۔ 2006 کے بعد سے غزہ، دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپوں میں سے ایک کیمپ پر بمباری سے اسرائیل نے زیر قبضہ فلسطینی علاقہ کے انتظام کی مثال ہے۔ اقوام متحدہ خاموش ہے کیونکہ امریکی حکومت جنگ بندی کی قرارداد کی بھی اجازت سے انکار کرتی ہے۔ کوئی بھی عرب ریاست فلسطینیوں کے دفاع کے لئے اپنی فوجی طاقت استعمال کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، مصری فضائیہ کے لئے غزہ کے اوپر ایک نو فلائی زون فراہم کرنا آسان ہوگا۔

اسرائیل کی جانب نہتّے شہریوں پر فائرنگ اور میزائل حملے کرنا انسانیت کے خلاف ہے۔ جو فلسطینیوں کو ان کے وقار اور ان کے مزاحمت کے حق سے محروم کرتا ہے۔ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے اپنے وطن کے حق میں، ان کے گھر واپس جانے کے حق اور قبضے کے خلاف مزاحمت میں حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف خوفناک تشدد پر ہمارے ردِ عمل کی تشکیل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 (1960) کے مطالعہ سے ہوئی ہے، 'آزادی کا عمل ناقابلِ تلافی اور ناقابل واپسی ہے اور سنگین بحرانوں سے بچنے کے لئے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور اس سنگین بحرانوں سے بچنے کے لئے نوآبادیات اور اس سے وابستہ علاحدگی اور امتیاز کے تمام طریقوں کو ختم کرنا ہوگا۔

اس سلسلہ میں بھارت کی ممتاز شخصیتوں میں اعجاز احمد، اروندھتی رائے، گیتا ہری ہرن، محمد یوسف تاریگامی، نصیرالدین شاہ، نین تارا سہگل، پربھات پٹنائک، رتنا پاٹھک شاہ، سبھاشنی علی، سدھنوا دیش پانڈے اور وجے پرشاد نے مندرجہ بالا مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے فلسطین کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

Last Updated : May 18, 2021, 9:00 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.