ETV Bharat / bharat

اتر پردیش اسمبلی انتخابات: مسلمان، سماج وادی پارٹی کے حامی کیوں؟

اترپردیش میں انتخابات ذات پات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑے جاتے ہیں، Uttar Pradesh Assembly Election اس لیے وہاں تمام نظریں مسلمانوں پر ہیں جو ریاست کی آبادی کا 19.3 فیصد ہیں۔ پہلے دو راؤنڈز میں شامل مغربی یوپی اور روہیل کھنڈ اضلاع میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تیسرے، چوتھے اور پانچویں راؤنڈ میں پولنگ ہونے والے اضلاع میں ذات پات کا بڑے پیمانے پر عمل دخل ہوگا۔

یوپی الیکشن میں مسلم ووٹ
یوپی الیکشن میں مسلم ووٹ
author img

By

Published : Feb 22, 2022, 7:42 PM IST

21.82 اکیس اعشاریہ 82 فیصد پر، 2012 میں حاصل کئے گئے ووٹوں میں 7.7 فیصد کی کمی سے، 2017 میں سماج وادی کے حاصل کردہ ووٹ بی ایس پی کے 22.23 فیصد سے کم تھے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے 39 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے 24.7 فیصد کا مجموعی اضافہ درج کیا۔ موجودہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اکھلیش یادو کے ووٹ حصے میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سینیئر صحافی اتل چندر لکھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے ریاست بھر کے مسلمانوں کو اسے ووٹ دینا چاہیے اور اسی طرح غیر یادو او بی سی کو بھی ووٹ دینا چاہیے۔

یوگی آدتیہ ناتھ کے متنازعہ بیانات میں سے ایک یہ تھا کہ اس الیکشن میں 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ یہ اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کا بالواسطہ حوالہ تھا اور ہندو ووٹوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش تھی تاکہ مسلمانوں کے ووٹوں کی یکجہتی کا مقابلہ کیا جائے جو یا تو کسی پارٹی کے حق میں جاسکتے ہیں یا سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور جینت چودھری کی راشٹریہ لوک دل کے مابین اتحاد کے پلڑے میں جاسکتے ہیں۔

چونکہ یوپی میں انتخابات ذات پات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑے جاتے ہیں، تمام نظریں مسلمانوں پر ہیں جو یوپی کی آبادی کا 19.3 فیصد ہیں۔ پہلے دو راؤنڈز میں شامل مغربی یوپی اور روہیل کھنڈ اضلاع میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تیسرے، چوتھے اور پانچویں راؤنڈ میں پولنگ ہونے والے اضلاع میں ذات پات کا بڑے پیمانے پر عمل دخل ہوگا۔

پہلے دو مرحلوں میں مسلمان فیصلہ کن عنصر ہیں۔ جاٹوں کے ساتھ مل کر، جو بنیادی طور پر کسان ہیں، وہ خطے میں قابل شمار طاقت ہیں۔ 2017 میں، بی جے پی نے پہلے مرحلے میں 58 میں سے 53 سیٹیں اور دوسرے مرحلے میں 55 میں سے 38 سیٹیں جیتی تھیں۔ سماج وادی پارٹی نے دوسرے مرحلے میں 15 سیٹیں جیتی ہیں جس میں نو اضلاع میں سے پانچ میں 40 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ صرف رام پور میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

دو ہزار تیرہ کے مظفر نگر فسادات کے بعد موجودہ آر ایل ڈی سربراہ کے والد چودھری اجیت سنگھ کا اثر و رسوخ ماند پڑگیا اور خطے کی سیاست بدل گئی۔ فسادات کے بعد مذہبی تقسیم اتنی گہری تھی کہ جاٹ، جو روایتی طور پر آر ایل ڈی کو ووٹ دیتے تھے، پارٹی سے الگ ہو گئے اور 2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کا ساتھ دیا۔ اب دریا سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ فسادات کی یاد تازہ نہیں ہے اور کسانوں کا بی جے پی کے خلاف 2020 میں بنائے گئے تین متنازعہ فارم قوانین پر غصہ کوئی بھولا نہیں ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی اقلیت مخالف کارکردگی پر مسلمان خائف تو ہیں، چنانچہ ایس پی-آر ایل ڈی کے اتحاد سے بی جے پی پر قابو پانے کی امید جاگ گئی ہے۔

یہ صورتحال اکھلیش یادو کے لیے خوش کن ہے۔ اطلاعات کے مطابق پہلے دو مرحلوں میں ان کی پارٹی نے کافی بہتر کارکردگی درج کی ہے۔ یادو کی خوش فہمی ان رپورٹس پر مبنی ہے کہ مسلمانوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) اور بی ایس پی جیسی جماعتوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بجائے، بی ایس پی، آر ایل ڈی اتحاد کو زیادہ سے زیادہ ووٹ دیا ہے۔ سنہ 2017 میں مسلم ووٹ ایس پی، بی ایس پی، کانگریس، اور یہاں تک کہ بی جے پی کے درمیان اس حد تک تقسیم ہو گیا تھا کہ دیوبند جیسے حلقۂ انتخاب میں بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوگیا جو عالمی شہرت یافتہ اسلامی مدرسے کا مرکز اور مسلمانوں کا گڑھ ہے۔

جہاں سماج وادی پارٹی آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد کرنے والی سب سے بڑی چیلنجر ہے اور وہ ان انتخابات میں رخ موڑنے کی امید کر رہی ہے، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے پہلے مرحلے میں 17 اور دوسرے میں 23 مسلمانوں کو میدان میں اتارا تاکہ ایس پی کو مسلم بلاک کی حمایت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ ایس پی کو یقین ہے کہ اقلیتی برادری بی ایس پی کی جانب کوئی جھکاؤ نہیں دکھائے گی کیونکہ اسدالدین اویسی کی طرح مایاوتی کے بارے میں بھی عام خیال ہے کہ وہ وقت آنے پر بی جے پی کے بہت قریب ہوتے ہیں۔

اقلیتی رائے دہندگان کے اس تاثر کی وجوہات ہیں۔ 1995 میں مایاوتی بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنیں اور بعد میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی۔ 2016 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے چھاپے میں اس کے نوئیڈا کے دفتر سے نقدی کی ایک بڑی کھیپ ضبط کرنے کے بعد (نوٹ بندی کے بعد) وہ دفاعی انداز میں چلی گئیں۔ ضبط کیے گئے ایک سو چار کروڑ روپے بعد میں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر واپس کئے گئے۔ اگر فی الحال بھاجپا کو جادوئی نمبرات کے لیے چند ہندسوں کی کمی پڑگئی تو مایاوتی ان کی مدد کے لیے سامنے آسکتی ہے۔ مایاوتی اس بات پر بہت خوش ہوں گی کیونکہ وہ ایس پی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مسلمان بی جے پی حکومت کے خاتمے کے لیے بی ایس پی، آر ایل ڈی اتحاد کی جانب نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اکیس اعشاریہ 82 فیصد پر، 2012 میں حاصل کئے گئے ووٹوں میں 7.7 فیصد کی کمی سے، 2017 میں سماج وادی کے حاصل کردہ ووٹ بی ایس پی کے 22.23 فیصد سے کم تھے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے 39 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے 24.7 فیصد کا مجموعی اضافہ درج کیا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اکھلیش یادو کے ووٹوں میں ٹیکٹونک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ریاست بھر کے مسلمانوں کو اسے ووٹ دینا چاہیے اور اسی طرح غیر یادو او بی سی کو بھی ووٹ دینا چاہیے۔ سوامی پرساد موریہ کی بی جے پی سے ایس پی میں شمولیت سے کچھ مدد ملنی چاہئے۔

ہوسکتا ہے کہ پہلے دو مراحل ہی یہ طے کریں گے کہ ریاست میں کون سی پارٹی حکومت بنائے گی، ایسا یقیناً نہ کہا جاسکے کیونکہ یوپی ایک وسیع ریاست ہے جس میں ذات اور برادری کے علاوہ بہت زیادہ اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔ ابھی مزید مراحل باقی ہیں۔ کیا بندیل کھنڈ میں دفاعی راہداری کام کرے گی اور کیا وسطی اور مشرقی یوپی کے کسان اپنے مغربی یوپی کے کسانوں کی طرز پر ووٹ دیں گے؟ گنے کے کاشتکار ووٹ کیسے دیں گے؟ کیا مفت راشن بی جے پی کے حق میں ہوگا؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو آئندہ کے مراحل میں اثر انداز ہوں گے۔ ان مراحل میں ہندو مسلم تقسیم ہی رائے دہندگان پر اثر انداز ہونے والا واحد عنصر نہیں ہے۔

(مضمون نگار صحافی ہیں۔ ان کی آراء کے ساتھ ای ٹی وی بھارت کا کلی یا جزوی طور پر متفق ہونا ضروری نہیں)

21.82 اکیس اعشاریہ 82 فیصد پر، 2012 میں حاصل کئے گئے ووٹوں میں 7.7 فیصد کی کمی سے، 2017 میں سماج وادی کے حاصل کردہ ووٹ بی ایس پی کے 22.23 فیصد سے کم تھے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے 39 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے 24.7 فیصد کا مجموعی اضافہ درج کیا۔ موجودہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اکھلیش یادو کے ووٹ حصے میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سینیئر صحافی اتل چندر لکھتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے ریاست بھر کے مسلمانوں کو اسے ووٹ دینا چاہیے اور اسی طرح غیر یادو او بی سی کو بھی ووٹ دینا چاہیے۔

یوگی آدتیہ ناتھ کے متنازعہ بیانات میں سے ایک یہ تھا کہ اس الیکشن میں 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ یہ اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کا بالواسطہ حوالہ تھا اور ہندو ووٹوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش تھی تاکہ مسلمانوں کے ووٹوں کی یکجہتی کا مقابلہ کیا جائے جو یا تو کسی پارٹی کے حق میں جاسکتے ہیں یا سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور جینت چودھری کی راشٹریہ لوک دل کے مابین اتحاد کے پلڑے میں جاسکتے ہیں۔

چونکہ یوپی میں انتخابات ذات پات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑے جاتے ہیں، تمام نظریں مسلمانوں پر ہیں جو یوپی کی آبادی کا 19.3 فیصد ہیں۔ پہلے دو راؤنڈز میں شامل مغربی یوپی اور روہیل کھنڈ اضلاع میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تیسرے، چوتھے اور پانچویں راؤنڈ میں پولنگ ہونے والے اضلاع میں ذات پات کا بڑے پیمانے پر عمل دخل ہوگا۔

پہلے دو مرحلوں میں مسلمان فیصلہ کن عنصر ہیں۔ جاٹوں کے ساتھ مل کر، جو بنیادی طور پر کسان ہیں، وہ خطے میں قابل شمار طاقت ہیں۔ 2017 میں، بی جے پی نے پہلے مرحلے میں 58 میں سے 53 سیٹیں اور دوسرے مرحلے میں 55 میں سے 38 سیٹیں جیتی تھیں۔ سماج وادی پارٹی نے دوسرے مرحلے میں 15 سیٹیں جیتی ہیں جس میں نو اضلاع میں سے پانچ میں 40 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ صرف رام پور میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

دو ہزار تیرہ کے مظفر نگر فسادات کے بعد موجودہ آر ایل ڈی سربراہ کے والد چودھری اجیت سنگھ کا اثر و رسوخ ماند پڑگیا اور خطے کی سیاست بدل گئی۔ فسادات کے بعد مذہبی تقسیم اتنی گہری تھی کہ جاٹ، جو روایتی طور پر آر ایل ڈی کو ووٹ دیتے تھے، پارٹی سے الگ ہو گئے اور 2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کا ساتھ دیا۔ اب دریا سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ فسادات کی یاد تازہ نہیں ہے اور کسانوں کا بی جے پی کے خلاف 2020 میں بنائے گئے تین متنازعہ فارم قوانین پر غصہ کوئی بھولا نہیں ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی اقلیت مخالف کارکردگی پر مسلمان خائف تو ہیں، چنانچہ ایس پی-آر ایل ڈی کے اتحاد سے بی جے پی پر قابو پانے کی امید جاگ گئی ہے۔

یہ صورتحال اکھلیش یادو کے لیے خوش کن ہے۔ اطلاعات کے مطابق پہلے دو مرحلوں میں ان کی پارٹی نے کافی بہتر کارکردگی درج کی ہے۔ یادو کی خوش فہمی ان رپورٹس پر مبنی ہے کہ مسلمانوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) اور بی ایس پی جیسی جماعتوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بجائے، بی ایس پی، آر ایل ڈی اتحاد کو زیادہ سے زیادہ ووٹ دیا ہے۔ سنہ 2017 میں مسلم ووٹ ایس پی، بی ایس پی، کانگریس، اور یہاں تک کہ بی جے پی کے درمیان اس حد تک تقسیم ہو گیا تھا کہ دیوبند جیسے حلقۂ انتخاب میں بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوگیا جو عالمی شہرت یافتہ اسلامی مدرسے کا مرکز اور مسلمانوں کا گڑھ ہے۔

جہاں سماج وادی پارٹی آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد کرنے والی سب سے بڑی چیلنجر ہے اور وہ ان انتخابات میں رخ موڑنے کی امید کر رہی ہے، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے پہلے مرحلے میں 17 اور دوسرے میں 23 مسلمانوں کو میدان میں اتارا تاکہ ایس پی کو مسلم بلاک کی حمایت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ ایس پی کو یقین ہے کہ اقلیتی برادری بی ایس پی کی جانب کوئی جھکاؤ نہیں دکھائے گی کیونکہ اسدالدین اویسی کی طرح مایاوتی کے بارے میں بھی عام خیال ہے کہ وہ وقت آنے پر بی جے پی کے بہت قریب ہوتے ہیں۔

اقلیتی رائے دہندگان کے اس تاثر کی وجوہات ہیں۔ 1995 میں مایاوتی بی جے پی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنیں اور بعد میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی۔ 2016 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے چھاپے میں اس کے نوئیڈا کے دفتر سے نقدی کی ایک بڑی کھیپ ضبط کرنے کے بعد (نوٹ بندی کے بعد) وہ دفاعی انداز میں چلی گئیں۔ ضبط کیے گئے ایک سو چار کروڑ روپے بعد میں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر واپس کئے گئے۔ اگر فی الحال بھاجپا کو جادوئی نمبرات کے لیے چند ہندسوں کی کمی پڑگئی تو مایاوتی ان کی مدد کے لیے سامنے آسکتی ہے۔ مایاوتی اس بات پر بہت خوش ہوں گی کیونکہ وہ ایس پی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مسلمان بی جے پی حکومت کے خاتمے کے لیے بی ایس پی، آر ایل ڈی اتحاد کی جانب نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اکیس اعشاریہ 82 فیصد پر، 2012 میں حاصل کئے گئے ووٹوں میں 7.7 فیصد کی کمی سے، 2017 میں سماج وادی کے حاصل کردہ ووٹ بی ایس پی کے 22.23 فیصد سے کم تھے۔ دوسری طرف، بی جے پی نے 39 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے 24.7 فیصد کا مجموعی اضافہ درج کیا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اکھلیش یادو کے ووٹوں میں ٹیکٹونک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ریاست بھر کے مسلمانوں کو اسے ووٹ دینا چاہیے اور اسی طرح غیر یادو او بی سی کو بھی ووٹ دینا چاہیے۔ سوامی پرساد موریہ کی بی جے پی سے ایس پی میں شمولیت سے کچھ مدد ملنی چاہئے۔

ہوسکتا ہے کہ پہلے دو مراحل ہی یہ طے کریں گے کہ ریاست میں کون سی پارٹی حکومت بنائے گی، ایسا یقیناً نہ کہا جاسکے کیونکہ یوپی ایک وسیع ریاست ہے جس میں ذات اور برادری کے علاوہ بہت زیادہ اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔ ابھی مزید مراحل باقی ہیں۔ کیا بندیل کھنڈ میں دفاعی راہداری کام کرے گی اور کیا وسطی اور مشرقی یوپی کے کسان اپنے مغربی یوپی کے کسانوں کی طرز پر ووٹ دیں گے؟ گنے کے کاشتکار ووٹ کیسے دیں گے؟ کیا مفت راشن بی جے پی کے حق میں ہوگا؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو آئندہ کے مراحل میں اثر انداز ہوں گے۔ ان مراحل میں ہندو مسلم تقسیم ہی رائے دہندگان پر اثر انداز ہونے والا واحد عنصر نہیں ہے۔

(مضمون نگار صحافی ہیں۔ ان کی آراء کے ساتھ ای ٹی وی بھارت کا کلی یا جزوی طور پر متفق ہونا ضروری نہیں)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.