ETV Bharat / bharat

'عمر خالد کے خلاف دائر چارج شیٹ ٹی وی کی اسکرپٹ معلوم ہوتی ہے' - سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس

عمر خالد کے وکیل تردیپ پیس نے ضمانت کی عرضی کی سماعت کے دوران کہا کہ دہلی پولیس کی جانب سے دائر کردہ چارج شیٹ کسی ٹی وی چینل کی اسکرپٹ معلوم ہوتی ہے۔

عمر خالد کے وکیل تردیپ پیس
عمر خالد کے وکیل تردیپ پیس
author img

By

Published : Sep 3, 2021, 7:04 PM IST

Updated : Sep 3, 2021, 7:30 PM IST

دہلی کی عدالت میں آج جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کی ضمانت کی عرضی کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عمر خالد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'مشرقی دہلی فسادات سازش معاملے میں یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار عمر کے خلاف پولیس کے ذریعے دائر چارج شیٹ میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے اور جن افسر نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، وہ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھتے ہیں'۔

سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے دلائل پیش کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ' چارج شیٹ ایک ٹیلی ویژن چینل کے اسکرپٹ کی طرح لگتی ہے'۔

پیس نے چارج شیٹ میں دئیے گئے بیانات کا موازنہ فلم ہیری پورٹر کے ویلین وولڈ مورٹ اور دیگر مثالوں سے کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس کی جانب سے دائر کی گئی حتمی رپورٹ بالکل 'واحیات' تھی اور ایسے معاملے میں تو کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے'۔ تاہم عدالت نے اس معاملے کو اب پیر تک ملتوی کردیا ہے۔

پیس نے عدالت میں گواہوں کے بیانات کے بدلنے پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔ انہوں نے اپنے دلائل کو شروع کرتے ہوئے کہا کہ 'گواہوں کے بیانات من گھڑہت ہیں'۔ وہ ہر بار اپنے بیانات بدل رہا ہے تو کیا ہم کسی آدمی کو جیل میں رکھنے کے لیے اس گواہ پر بھروسہ کرسکتے ہیں، جس کو یہ یاد نہیں کہ 8 جنوری کو کوئی میٹنگ ہوئی تھی۔ گواہ یا تو دباؤ میں بیان دے رہا ہے یا وہ گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے'۔

واضح رہے کہ پولیس کے ذریعہ 100 صفحہ پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 8 جنوری 2020 کو شاہین باغ میں عمر خالد، خالد سیفی اور طاہر حسین نے مل کر دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کرنے لیے میٹنگ کی تھی۔

پیس نے مزید بتایا کہ چارج شیٹ میں پریشان کن حقائق بیان کیے گئے ہیں' جو بتاتا ہے کہ جس پولیس افسر نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا ہے، وہ اس افسر کا تصور ہے'۔

حالیہ چارج شیٹ میں دہلی پولیس نے عمر خالد کے خلاف جے این یو میں سنہ 2016 میں لگائے گئے 'بھارت مخالف نعرہ' کا حوالہ دیا ہے، جس پر پیس نے عدالت میں کہا کہ "کیا اس طرح سے چارج شیٹ لکھی جاتی ہے؟ یہ کسی نیوز چینل کی اسکرپٹ لگتی ہے۔ پولیس اس چارج شیٹ میں سنہ 2016 کے جے این یو معاملے کو بھی شامل کر رہی ہے۔

پولیس کو یہ کہاں سے ملا کہ خالد نے 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کہا تھا۔ اس کے بعد پیس نے عدالت کو عمر کے خلاف 2016 میں درج ہونے والے بغاوت کے مقدمے سے آگاہ کرواتے ہوئے عدالت کو 2016 کی چارج شیٹ کی کاپی دی۔

خالد کے وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی چارج شیٹ نہیں ہے جس میں یہ الزام ہو کہ خالد نے اس طرح کے نعرے لگائے تھے، یہاں تک کہ سنہ 2016 میں اسی پولیس کے ذریعہ دائر کردہ چارج شیٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2016 میں جو ہوا تھا وہ ایک پروگرام تھا، جسے بعد میں بغاوت کہا گیا۔ کہیں بھی یہ الزام نہیں لگایا تھا کہ عمر خالد نے 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کہا تھا۔

پیس نے کہا کہ " یہ بات پہلی چارج شیٹ میں درج نہیں تھی تو آپ اسے اس میں کیسے شامل کرسکتے ہیں؟ پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پولیس کے ذریعہ درج کی گئی یہ موجودہ ایف آئی آر سراسر جھوٹ ہے۔ خالد نے ایسا نہیں کہا ہے، یہ پولیس کا ماننا ہے'۔

پیس نے کہا کہ چارج شیٹ عمر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیس نے کہا کہ پولیس مسلسل سی اے اے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ سی اے اے کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ملک کی سیکولرازم پر یقین کرتے ہیں۔تاہم اگر کوئی بھی سی اے اے کی مخالفت کرتا ہے اسے فرقہ وارانہ اور ہم آہنگی کو بگاڑنے والا قرار دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا۔ اس میں دیا گیا کون سا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کسی ایک خاص کمیونٹی کے لیے تھا؟ ایسا کوئی بھی بیان نہیں ہے۔ یہ ایک سیکولر احتجاج تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے کی مخالف کرنا غلط ہے۔

پیس نے کہا کہ پولیس خالد کو صرف اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مجرم بنا رہی ہے۔ پولیس ایک شبیہہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ 'اسلام' اور 'مسجد' ایک برا لفظ ہے۔

انہوں نے احتجاج میں خواتین کی حصہ داری کے بات کرتے ہوئے کہا کہ چارج شیٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ملزمین نے اپنے احتجاج کو چھپانے کے لیے صنفی، میڈیا اور سیکولر لبادہ کا استعمال کیا تھا۔

پیس نے اس پر کہا کہ "کیا خواتین نے کہا کہ ان کا استحصال کیا گیا؟ یا خواتین کو احتجاج کا حق نہیں ہو سکتا؟ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ پولیس اسے غلط موڑ دے رہی ہے۔ لیکن کیا خواتین کا احتجاج کرنا غلط ہے؟ یا وہ احتجاج کرنے سے قاصر ہیں؟ کیا کسی بھی قسم کی تحریک کی شروعات صرف مرد ہی کرسکتے ہیں۔

دہلی کی عدالت میں آج جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کی ضمانت کی عرضی کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عمر خالد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'مشرقی دہلی فسادات سازش معاملے میں یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار عمر کے خلاف پولیس کے ذریعے دائر چارج شیٹ میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے اور جن افسر نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، وہ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھتے ہیں'۔

سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے دلائل پیش کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ' چارج شیٹ ایک ٹیلی ویژن چینل کے اسکرپٹ کی طرح لگتی ہے'۔

پیس نے چارج شیٹ میں دئیے گئے بیانات کا موازنہ فلم ہیری پورٹر کے ویلین وولڈ مورٹ اور دیگر مثالوں سے کرتے ہوئے کہا کہ 'پولیس کی جانب سے دائر کی گئی حتمی رپورٹ بالکل 'واحیات' تھی اور ایسے معاملے میں تو کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے'۔ تاہم عدالت نے اس معاملے کو اب پیر تک ملتوی کردیا ہے۔

پیس نے عدالت میں گواہوں کے بیانات کے بدلنے پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔ انہوں نے اپنے دلائل کو شروع کرتے ہوئے کہا کہ 'گواہوں کے بیانات من گھڑہت ہیں'۔ وہ ہر بار اپنے بیانات بدل رہا ہے تو کیا ہم کسی آدمی کو جیل میں رکھنے کے لیے اس گواہ پر بھروسہ کرسکتے ہیں، جس کو یہ یاد نہیں کہ 8 جنوری کو کوئی میٹنگ ہوئی تھی۔ گواہ یا تو دباؤ میں بیان دے رہا ہے یا وہ گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے'۔

واضح رہے کہ پولیس کے ذریعہ 100 صفحہ پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 8 جنوری 2020 کو شاہین باغ میں عمر خالد، خالد سیفی اور طاہر حسین نے مل کر دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کرنے لیے میٹنگ کی تھی۔

پیس نے مزید بتایا کہ چارج شیٹ میں پریشان کن حقائق بیان کیے گئے ہیں' جو بتاتا ہے کہ جس پولیس افسر نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا ہے، وہ اس افسر کا تصور ہے'۔

حالیہ چارج شیٹ میں دہلی پولیس نے عمر خالد کے خلاف جے این یو میں سنہ 2016 میں لگائے گئے 'بھارت مخالف نعرہ' کا حوالہ دیا ہے، جس پر پیس نے عدالت میں کہا کہ "کیا اس طرح سے چارج شیٹ لکھی جاتی ہے؟ یہ کسی نیوز چینل کی اسکرپٹ لگتی ہے۔ پولیس اس چارج شیٹ میں سنہ 2016 کے جے این یو معاملے کو بھی شامل کر رہی ہے۔

پولیس کو یہ کہاں سے ملا کہ خالد نے 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کہا تھا۔ اس کے بعد پیس نے عدالت کو عمر کے خلاف 2016 میں درج ہونے والے بغاوت کے مقدمے سے آگاہ کرواتے ہوئے عدالت کو 2016 کی چارج شیٹ کی کاپی دی۔

خالد کے وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی چارج شیٹ نہیں ہے جس میں یہ الزام ہو کہ خالد نے اس طرح کے نعرے لگائے تھے، یہاں تک کہ سنہ 2016 میں اسی پولیس کے ذریعہ دائر کردہ چارج شیٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2016 میں جو ہوا تھا وہ ایک پروگرام تھا، جسے بعد میں بغاوت کہا گیا۔ کہیں بھی یہ الزام نہیں لگایا تھا کہ عمر خالد نے 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کہا تھا۔

پیس نے کہا کہ " یہ بات پہلی چارج شیٹ میں درج نہیں تھی تو آپ اسے اس میں کیسے شامل کرسکتے ہیں؟ پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پولیس کے ذریعہ درج کی گئی یہ موجودہ ایف آئی آر سراسر جھوٹ ہے۔ خالد نے ایسا نہیں کہا ہے، یہ پولیس کا ماننا ہے'۔

پیس نے کہا کہ چارج شیٹ عمر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیس نے کہا کہ پولیس مسلسل سی اے اے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ سی اے اے کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ملک کی سیکولرازم پر یقین کرتے ہیں۔تاہم اگر کوئی بھی سی اے اے کی مخالفت کرتا ہے اسے فرقہ وارانہ اور ہم آہنگی کو بگاڑنے والا قرار دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا۔ اس میں دیا گیا کون سا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کسی ایک خاص کمیونٹی کے لیے تھا؟ ایسا کوئی بھی بیان نہیں ہے۔ یہ ایک سیکولر احتجاج تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے کی مخالف کرنا غلط ہے۔

پیس نے کہا کہ پولیس خالد کو صرف اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے مجرم بنا رہی ہے۔ پولیس ایک شبیہہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ 'اسلام' اور 'مسجد' ایک برا لفظ ہے۔

انہوں نے احتجاج میں خواتین کی حصہ داری کے بات کرتے ہوئے کہا کہ چارج شیٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ملزمین نے اپنے احتجاج کو چھپانے کے لیے صنفی، میڈیا اور سیکولر لبادہ کا استعمال کیا تھا۔

پیس نے اس پر کہا کہ "کیا خواتین نے کہا کہ ان کا استحصال کیا گیا؟ یا خواتین کو احتجاج کا حق نہیں ہو سکتا؟ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ پولیس اسے غلط موڑ دے رہی ہے۔ لیکن کیا خواتین کا احتجاج کرنا غلط ہے؟ یا وہ احتجاج کرنے سے قاصر ہیں؟ کیا کسی بھی قسم کی تحریک کی شروعات صرف مرد ہی کرسکتے ہیں۔

Last Updated : Sep 3, 2021, 7:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.