جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے دہلی فسادمیں مبینہ طور پر ماخوذ 30 ملزمین کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ محض ضمانت پر رہائی جمعیۃ علماء ہند کا مقصود نہیں بلکہ اس کی کوشش ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو فساد میں جبراًملوث کیا گیا ہے ان کو قانونی طورپر انصاف دلایا جائے۔ یہ بات انہوں نے آج دہلی میں جاری ایک ریلیز میں کہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کی ٹیم اسی نکتہ پر کام کررہی ہے اور مکمل انصاف دلانے تک ہماری یہ قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کچھ اخبارات اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں نے دہلی فساد کی اصل کہانی کا پردہ چاک کردیا ہے، یہ افسوسناک سچائی دنیا کے سامنے آچکی ہے۔
مولانا نے دعویٰ کیا کہ تفتیش اور کارروائی کے نام پر اصل خاطیوں کو پولس نے بچالیا اور ان بے گناہ لوگوں کو جن کا دوردورتک اس فساد سے کوئی تعلق نہیں تھا ملزم بنا دیا گیا، اس کھلی ہوئی ناانصافی پر جمعیۃ علماء ہند خاموش بیٹھی نہیں رہ سکتی تھی، چنانچہ اس نے متاثرین کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے تجربہ کار وکلاء کا باقاعدہ ایک پینل بھی تشکیل دیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے 70 برسوں سے مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد، مظالم اور فسادات کے خلاف جمعیۃ علماء ہند ایک سخت قانون بنانے کا مطالبہ کررہی ہے، جس میں کہیں فساد ہونے کی صورت میں وہاں کی ضلع انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کا التزام ہو۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا طویل تجربہ یہ ہے کہ ڈی ایم اور ایس پی کو اگر اس بات کا خطرہ ہوکہ فساد ہونے کی صورت میں خود ان کی اپنی گردن میں قانون کا پھندا پڑ سکتا ہے تو کسی کے چاہنے سے بھی کہیں فساد نہیں ہو سکتا، انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ اس طرح کی قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے قانون کی بھی ضرورت ہے جو راحت، ریلیف اور بازآبادکاری کے کاموں میں بھی یکسانیت لائے اور حکام کو اس کا پابند بھی بنائے۔
مولانا مدنی نے دعویٰ کیا کہ اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دہلی فساد منصوبہ بند فساد تھا اور اس کے پیچھے فرقہ پرست طاقتیں کام کررہی تھیں لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بے گناہوں کو گرفتار کرکے تفتیش کی فائل کو تقریباً بند کردیا گیا، جو کردار اس فسادمیں مسلسل سامنے آتے رہے وہ اب بھی موجودہیں اور اسی طرح زہر افشانی بھی کررہے ہیں، مگر ان کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے اتحاد، سالمیت اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، وہ مملکتیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں، یہ ایک بڑی سچائی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ملک اور قوم کی ترقی کا راز اتحاد میں ہی پوشیدہ ہیں انتشار وتفریق میں نہیں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ فرقے اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور ناانصافی کسی بھی مہذب معاشرہ کے لئے ایک بدنما داغ ہیں۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پر ماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانت عرضداشتوں کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے، مزید 24 افرادکی ضمانت کی عرضیاں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کی کوششوں سے منظور ہوگئیں، قابل ذکر ہے کہ اب تک نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ سے کل تیس افراد کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں نیز مسلم نوجوانوں کی جیل سے رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس شریش کیت نے ملزمین ریحان پردھان، ارشد قیوم، ارشاد احمد، محمد ریحان، ریاست علی، شاہ عالم، راشیدسیفی اور زبیر احمد کی مشروط ضمانت منظور کی ہے جبکہ ملزم زبیر احمد کی جیل سے رہائی عمل میں آچکی ہے۔ ان تمام ملزمین کی ضمانتیں ایف آئی ار نمبر 117/2020, 80/2020,120/2020,119/2020 میں عمل آئی ہے جبکہ اس سے قبل ملزمین ریاست علی، شاہ عالم، راشید سیفی، ارشد قیوم،، محمد شاداب، محمد عابد، و دیگر ملزمین کی ضمانتیں کڑکڑڈوما سیشن عدالت کے جج ونود کمار یادو نے منظور کی تھی۔
دہلی ہائی کورٹ اور نچلی عدالت نے ملزمین کو پچیس ہزار روپئے کے ذاتی مچلکہ پر ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کئے، حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کی ضمانت پررہائی کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی سے نقض امن میں خلل پڑسکتا ہے لیکن عدالت نے دفاعی وکلاکے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کرلی۔
(یو این آئی)