ETV Bharat / bharat

The Kashmir Files: دی کشمیر فائلز میں کشمیری پنڈتوں کے ہلاکت کے اعداد و شمار پر بحث شروع - کشمیری پنڈتوں کے ہلاکت کے اعداد و شمار پر بحث

دی کشمیری فائلز The Kashmir Files کے ریلیز ہونے کے بعد ایک بار پھر سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کے متعلق بحث شروع ہو گئی ہے۔ گذشتہ برس نومبر میں ضلع سرینگر پولیس ہیڈکوارٹرس نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا تھا کہ عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران 1,724 افراد کو ہلاک کیا جن میں 89 کشمیری پنڈت تھے۔ actual figure and killing of Kashmiri pandits

the-kashmir-files-restarts-debate-on-actual-figure-and-killing-of-kashmiri-pandits
دی کشمیر فائلز میں کشمیری پنڈتوں کے ہلاکت کے اعداد و شمار پر بحث شروع
author img

By

Published : Mar 14, 2022, 10:58 PM IST

ہدایت کار وویک اگنی ہوتری کی فلم دی کشمیر فائلز اس وقت بھارت کی بیشتر ریاستوں میں ٹیکس فری دکھائی جا رہی ہے لیکن اس فلم کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکت کی حقیقی تعداد کے متعلق ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ actual figure and killing of Kashmiri pandits

معروف منصف سلیل ترپاٹھی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹر سرینگر کی جانب سے ایک رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کا جواب یہ کہتے ہوئے شائع کیا کہ "تو آپ فیکٹس چاہیے تھے؟ ہر شہری کی موت ایک سانحہ ہے۔ ہر مبالغہ آرائی جھوٹ ہے۔"

ان کا یہ ٹویٹ آگ کی طرح سے ملک میں پھیل گیا اور ہر کوئی کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت کی تعداد پر سوال اٹھانے لگا۔ قابل ذکر ہے کہ ای ٹی وی بھارت نے بھی اس آر ٹی آئی کے حوالے سے خبر کی تھی۔

کشمیری پنڈتوں کے ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کے متعلق آرٹی آئی
کشمیری پنڈتوں کے ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کے متعلق آرٹی آئی

گزشتہ برس نومبر مہینے کی 27 تاریخ کو ضلع سرینگر پولیس ہیڈکوارٹرس نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دعویٰ کیا تھا کہ عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران 1,724 افراد کو ہلاک کیا جن میں 89 کشمیری پنڈت تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

Sitharaman On The Kashmir Files: 'مائگریشن کے وقت کشمیری پنڈتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی'

ہریانہ کے سمالکھا (پانی پت) سے آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور کے سوال کے جواب میں، سرینگر کے ضلعی پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک ڈی ایس پی نے بتایا کہ "سنہ 1990 میں عسکریت پسندی کے آغاز سے لے کر اب تک حملوں میں 89 کشمیری پنڈت مارے گئے۔ اسی عرصے کے دوران دیگر مذاہب کے 1,635 افراد کو بھی قتل کیا گیا۔"

ای ٹی وی بھارت نے جب کپور سے اس حوالے سے بات کی تھی تو اُن کا کہنا تھا کہ "کشمیر میں عسکریت پسندی کے ہاتھوں مارے گئے تقریباً پانچ فیصد کشمیری پنڈت ہیں۔

حکام نے ابھی تک باز آباد کشمیری پنڈتوں کی تعداد سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ بی جے پی کشمیری پنڈتوں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے، صرف ان کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔ اس حوالے سے جانکاری سب تک پہنچنی چاہیے تاکہ کسی غیر ہندو کو مشکلات کا سامنے نہ کرنا پڑے۔"

کپور نے مزید کہا تھا کہ "وادی میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد سے تقریباً 1.54 لاکھ افراد بشمول ہندو، مسلمان اور سکھ وادی چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 53,958 ہندو، 11,212 مسلمان، 5,013 سکھ ریلیف پالیسی کے مطابق حکومت سے مدد حاصل کر رہے تھے جبکہ 81,448 ہندو، 949 مسلمان اور 1,542 سکھ امداد سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

Reactions on Film the Kashmir Files: کشمیر فائلز فلم پر کشمیری مہاجر پنڈت کیا سوچتے ہیں؟

کپور کے ذریعہ ریلیف اور رہیبلٹیشن کمشنر (جے اینڈ کے) کے دفتر میں دائر کردہ دوسرے آر ٹی آئی کے جواب کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1.54 لاکھ لوگوں میں سے 88 فیصد، یا 1.35 لاکھ افراد، جو بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے وادی سے بھاگ گئے، کشمیری پنڈت تھے۔

مرکز اور ریاستی حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کو فراہم کی جانے والی مالی مدد سمیت سہولیات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہر رجسٹرڈ کشمیری تارکین وطن کو ماہانہ 3,250 روپے کی رقم بطور امداد کے علاوہ 9 کلو گرام چاول، 2 کلو آٹا اور 1 کلو چینی مشتمل راشن بھی ادا کی جا رہی ہے۔

کتاب (Political History of Kashmir) میں، ایم راسگوترا لکھتے ہیں کہ سال 1990 میں، "300,000 پنڈت مرد، عورتیں اور بچے عسکریت پسندوں کی بندوقوں کے خطرے کے تحت وادی سے چلے گئے اور جموں اور دیگر جگہوں پر عجلت میں منظم مہاجر کیمپوں میں داخل ہوئے"۔

رسگوترا کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے، معروف مورخ خالد بشیر احمد اپنی مشہور کتاب (Kashmir Exposing the myth behind the narrative) میں لکھتے ہیں: "1981 کی مردم شماری کے مطابق، کشمیر میں ہندوؤں کی کل آبادی (بشمول غیر کشمیریوں) 124.078 تھی۔ 1971 سے 1981 تک کمیونٹی کی دہائی میں 6.75 فیصد ترقی کو دیکھتے ہوئے، 1991 میں ان کی آبادی 132,453 ہو گی۔

وہیں مرکز نے بھی گزشتہ برس مارچ میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 1990 کی دہائی سے اب تک تقریباً 3,800 کشمیری تارکین وطن واپس کشمیر آئے ہیں اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے 520 وزیر اعظم کے پیکیج کے تحت ملازمتیں لینے کے لیے واپس آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

The Kashmir Files: 'دی کشمیر فائلز' فلم پر شیعہ برادری کا اعتراض

قابل ذکر ہے کہ کچھ پنڈت گروپ یہ کہتے رہے ہیں کہ 1990 میں ان کی برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا گیا جس کی وجہ سے وہ وادی کشمیر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

1990 کے بعد بھی پنڈتوں کے قتل کے کچھ واقعات ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو 1990 کی ہجرت کے بعد پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے وندھاما گاندربل، سنگرام پورہ بڈگام اور ندیمرگ شوپیاں میں 1995 اور 2004 کے درمیان مارے گئے تھے۔

غور طلب ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اس وقت کے رکن سید بشارت بخاری کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، ریونیو منسٹر رمن بھلا نے 23 مارچ 2010 کو جموں و کشمیر اسمبلی کو بتایا تھا کہ ''کشمیر میں 1989 سے 2004 تک 219 پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔ سنہ 2004 سے کسی بھی کشمیر پنڈت شخص کا قتل نہیں ہوا۔"

وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہر ایک موت کے لیے ایک لاکھ روپے کی ایکس گریشیا بطور معاوضہ بھی ادا کی ہے۔ اس کے علاوہ، 39,64,91,838 روپے کی رقم عسکریت پسندی کے پھوٹنے کے بعد سے پنڈتوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان معاوضے کے طور پر ادا کیے گئے ہے۔"

ہدایت کار وویک اگنی ہوتری کی فلم دی کشمیر فائلز اس وقت بھارت کی بیشتر ریاستوں میں ٹیکس فری دکھائی جا رہی ہے لیکن اس فلم کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی اور ہلاکت کی حقیقی تعداد کے متعلق ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ actual figure and killing of Kashmiri pandits

معروف منصف سلیل ترپاٹھی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹر سرینگر کی جانب سے ایک رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کا جواب یہ کہتے ہوئے شائع کیا کہ "تو آپ فیکٹس چاہیے تھے؟ ہر شہری کی موت ایک سانحہ ہے۔ ہر مبالغہ آرائی جھوٹ ہے۔"

ان کا یہ ٹویٹ آگ کی طرح سے ملک میں پھیل گیا اور ہر کوئی کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت کی تعداد پر سوال اٹھانے لگا۔ قابل ذکر ہے کہ ای ٹی وی بھارت نے بھی اس آر ٹی آئی کے حوالے سے خبر کی تھی۔

کشمیری پنڈتوں کے ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کے متعلق آرٹی آئی
کشمیری پنڈتوں کے ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کے متعلق آرٹی آئی

گزشتہ برس نومبر مہینے کی 27 تاریخ کو ضلع سرینگر پولیس ہیڈکوارٹرس نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دعویٰ کیا تھا کہ عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران 1,724 افراد کو ہلاک کیا جن میں 89 کشمیری پنڈت تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

Sitharaman On The Kashmir Files: 'مائگریشن کے وقت کشمیری پنڈتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی'

ہریانہ کے سمالکھا (پانی پت) سے آر ٹی آئی کارکن پی پی کپور کے سوال کے جواب میں، سرینگر کے ضلعی پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک ڈی ایس پی نے بتایا کہ "سنہ 1990 میں عسکریت پسندی کے آغاز سے لے کر اب تک حملوں میں 89 کشمیری پنڈت مارے گئے۔ اسی عرصے کے دوران دیگر مذاہب کے 1,635 افراد کو بھی قتل کیا گیا۔"

ای ٹی وی بھارت نے جب کپور سے اس حوالے سے بات کی تھی تو اُن کا کہنا تھا کہ "کشمیر میں عسکریت پسندی کے ہاتھوں مارے گئے تقریباً پانچ فیصد کشمیری پنڈت ہیں۔

حکام نے ابھی تک باز آباد کشمیری پنڈتوں کی تعداد سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ بی جے پی کشمیری پنڈتوں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے، صرف ان کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔ اس حوالے سے جانکاری سب تک پہنچنی چاہیے تاکہ کسی غیر ہندو کو مشکلات کا سامنے نہ کرنا پڑے۔"

کپور نے مزید کہا تھا کہ "وادی میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد سے تقریباً 1.54 لاکھ افراد بشمول ہندو، مسلمان اور سکھ وادی چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 53,958 ہندو، 11,212 مسلمان، 5,013 سکھ ریلیف پالیسی کے مطابق حکومت سے مدد حاصل کر رہے تھے جبکہ 81,448 ہندو، 949 مسلمان اور 1,542 سکھ امداد سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

Reactions on Film the Kashmir Files: کشمیر فائلز فلم پر کشمیری مہاجر پنڈت کیا سوچتے ہیں؟

کپور کے ذریعہ ریلیف اور رہیبلٹیشن کمشنر (جے اینڈ کے) کے دفتر میں دائر کردہ دوسرے آر ٹی آئی کے جواب کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1.54 لاکھ لوگوں میں سے 88 فیصد، یا 1.35 لاکھ افراد، جو بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے وادی سے بھاگ گئے، کشمیری پنڈت تھے۔

مرکز اور ریاستی حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کو فراہم کی جانے والی مالی مدد سمیت سہولیات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہر رجسٹرڈ کشمیری تارکین وطن کو ماہانہ 3,250 روپے کی رقم بطور امداد کے علاوہ 9 کلو گرام چاول، 2 کلو آٹا اور 1 کلو چینی مشتمل راشن بھی ادا کی جا رہی ہے۔

کتاب (Political History of Kashmir) میں، ایم راسگوترا لکھتے ہیں کہ سال 1990 میں، "300,000 پنڈت مرد، عورتیں اور بچے عسکریت پسندوں کی بندوقوں کے خطرے کے تحت وادی سے چلے گئے اور جموں اور دیگر جگہوں پر عجلت میں منظم مہاجر کیمپوں میں داخل ہوئے"۔

رسگوترا کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے، معروف مورخ خالد بشیر احمد اپنی مشہور کتاب (Kashmir Exposing the myth behind the narrative) میں لکھتے ہیں: "1981 کی مردم شماری کے مطابق، کشمیر میں ہندوؤں کی کل آبادی (بشمول غیر کشمیریوں) 124.078 تھی۔ 1971 سے 1981 تک کمیونٹی کی دہائی میں 6.75 فیصد ترقی کو دیکھتے ہوئے، 1991 میں ان کی آبادی 132,453 ہو گی۔

وہیں مرکز نے بھی گزشتہ برس مارچ میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 1990 کی دہائی سے اب تک تقریباً 3,800 کشمیری تارکین وطن واپس کشمیر آئے ہیں اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے 520 وزیر اعظم کے پیکیج کے تحت ملازمتیں لینے کے لیے واپس آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

The Kashmir Files: 'دی کشمیر فائلز' فلم پر شیعہ برادری کا اعتراض

قابل ذکر ہے کہ کچھ پنڈت گروپ یہ کہتے رہے ہیں کہ 1990 میں ان کی برادری کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا گیا جس کی وجہ سے وہ وادی کشمیر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

1990 کے بعد بھی پنڈتوں کے قتل کے کچھ واقعات ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو 1990 کی ہجرت کے بعد پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے وندھاما گاندربل، سنگرام پورہ بڈگام اور ندیمرگ شوپیاں میں 1995 اور 2004 کے درمیان مارے گئے تھے۔

غور طلب ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اس وقت کے رکن سید بشارت بخاری کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، ریونیو منسٹر رمن بھلا نے 23 مارچ 2010 کو جموں و کشمیر اسمبلی کو بتایا تھا کہ ''کشمیر میں 1989 سے 2004 تک 219 پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔ سنہ 2004 سے کسی بھی کشمیر پنڈت شخص کا قتل نہیں ہوا۔"

وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہر ایک موت کے لیے ایک لاکھ روپے کی ایکس گریشیا بطور معاوضہ بھی ادا کی ہے۔ اس کے علاوہ، 39,64,91,838 روپے کی رقم عسکریت پسندی کے پھوٹنے کے بعد سے پنڈتوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصان معاوضے کے طور پر ادا کیے گئے ہے۔"

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.