نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو ملازمین کی پنشن (ترمیمی) اسکیم-2014 کی صداقت کو برقرار رکھنے والا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس انیرودھا بوس اور جسٹس سدھانشو دھولیا نے ملازمین کی پنشن (ترمیمی) اسکیم 2014 کو برقرار رکھا، لیکن اسکیم کی کچھ دفعات کو ہٹا کر اس کا فائدہ اٹھانے کے لئے (جو واضح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اسکیم کا فائدہ نہیں اٹھا سکے) چار ماہ کے اضافی وقت کی مہلت دی۔Employees Pension Amendment Scheme 2014
کیرالہ ہائی کورٹ، دہلی ہائی کورٹ اور راجستھان ہائی کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والی مرکزی حکومت اور ایمپلائز پراویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن (ای پی ایف او) کی نظرثانی کی درخواستوں پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے چھ دن تک سماعت کے بعد 11 اگست کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
ملازمین کی پنشن (ترمیمی) اسکیم 2014 کو کیرالہ ہائی کورٹ نے 2018 میں منسوخ کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی مقررہ تاریخ کو ہٹاتے ہوئے 15,000 روپے ماہانہ کی بیسک تنخواہ کی حد سے اوپر کے تناسب (15,000 روپے سے زیادہ تنخواہ کی صورت میں) سے پنشن کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 2019 میں ای پی ایف او کی اپیل کو خارج کر دیا تھا۔ اس کے بعد ای پی ایف او اور مرکزی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے نظرثانی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے معاملہ کو تین ججوں کی بنچ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نظرثانی درخواست میں دلیل دی گئی کہ پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ مختلف ہیں۔ پروویڈنٹ فنڈ کی رکنیت خود پنشن فنڈ میں تبدیل نہیں ہوگی۔ یہ بھی دلیل دی گئی کہ پنشن اسکیم کم عمر ملازمین کے لیے ہے۔ اگر اس کی حد بڑھا دی جاتی ہے یعنی زیادہ بیسک تنخواہ والے افراد کی تنخواہ کے تناسب سے پنشن کی اجازت دی جاتی ہے تو اس سے مالی بوجھ بڑھے گا اور معاشی عدم توازن پیدا ہوگا۔دوسری جانب پنشنرز کی جانب سے عدالت کے روبرو دلیل دی گئی کہ پنشن سود کی رقم سے ادا کی جاتی ہے۔ اس کا اصل فنڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملازمین کی پنشن (ترمیمی) اسکیم 2014 کے تحت اسے 6500 روپے سے بڑھا کر 15000 روپے فی ہزار کر دی گئی تھی۔
یواین آئی