غذائی بحرانوں کے خلاف عالمی نیٹ ورک کے اس مطالعے میں جہاں 55 ممالک میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے، وہاں پانچ سال قبل فاقہ کشی کی اس خوفناک سطح کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔
کہا گیا ہے کہ افریقی ممالک عجیب و غریب طریقے سے متاثر ہیں۔ پُرتشدد کشمکش کی وجہ سے کروڑوں افراد کے پاس کھانے کے لیے کھانا میسر نہیں ہے جس کی وجہ ان کے جان پر بن آئی ہے۔
ملکوں اور خطوں میں تقریباً 2.80 کروڑ افراد غذائیت سے محروم رہے۔ ایک ندازے کے مطابق سال 2020 میں 9.80 کروڑ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے اتنا کھانا نہیں تھا جو ان کی جان کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ متاثرہ ہر تین میں سے دو افراد افریقی براعظم سے ہیں۔
دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی حالات بدتر ہیں۔ یمن، افغانستان، شام اور ہیٹی ان ممالک میں شامل تھے جنہیں گذشتہ سال بدترین خوراک کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیوں نے تیار کیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں 39 ممالک اور خطوں کو غذائی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان ممالک اور خطوں میں خوراکی عدم تحفظ کی اعلی سطح سے متاثرہ آبادی 2016 میں چار ملین تھی جبکہ 2020 میں یہ بڑھ کر 14 ملین ہو گئی۔ اس رپورٹ میں جن 55 ممالک اور خطوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں پانچ سال سے کم عمر کے ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ بچے بچپن پستہ قد کے شکار ہیں اور سنہ دو ہزار بیس میں کم از کم 15 ملین بچوں میں عدم استحکام کے آثار نظر آئے ہیں۔