ETV Bharat / bharat

Mehdi Hassan Death Anniversary: شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی دسویں برسی پر خصوصی پیشکش

مہدی حسن نے اردو غزلوں میں اپنی طلسماتی آواز کے ذریعے دنیائے موسیقی میں جو مقام حاصل کیا وہ رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔ روح کو تازگی بخشنے والی ان کی آواز ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔

مہدی حسن
مہدی حسن
author img

By

Published : Jun 13, 2022, 1:21 PM IST

غزلوں کو نغمگی اور دوام بخشنے میں مہدی حسن کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ایسے فنکار تھے جن کی مترنم آواز اور اسلوب و موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ہر خاص و عام کو اپنا دیوانہ بنا ڈالا۔ دنیائے غزل کے اس شہرہ آفاق گلوکار نے جتنی بھی غزلیں گائیں وہ شاہکار بن گئیں۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، دنیائے غزل میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اردو غزلوں کو انہوں نے اپنی طلسماتی آواز کے ذریعے دنیائے موسیقی میں جو مقام عطا کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔

روح کو تازگی عطا کرنے والی ان کی آواز ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جب مخملی آواز کے جادوگر جگجیت سنگھ ہم سے جدا ہوئے تھے اور ان کے بعد مہدی حسن کی جدائی نے غزل شوقین کو مایوس کردیا، اٹھارہ جولائی سنہ 1927 کو راجستھان کے لونا علاقے میں پیدا ہونے والے مہدی حسن نے غزل گائیکی کا آغاز کم عمری سے کردیا تھا۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں پہلی بار موسیقی پروگرام پیش کرکے سامعین کو مسحور کردیا۔

تقسیم ہند کے وقت مہدی حسن 20 برس کے تھے۔ ان کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کرگیا۔ ہجرت کے تمام مصائب ان کے ساتھ تھے۔ ان کے کنبے کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ گزر بسر اور پیٹ بھرنے کے لیے مہدی حسن نے ایک سائیکل کی دکان میں کام کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں وہ کار اور ڈیزل ٹریکٹر کے میکینک بن گئے۔ تمام مشکلات کے بعد موسیقی کے تئیں ان کا جذبہ سرد نہیں پڑا۔ انہوں نے روزمرہ کا ریاض جاری رکھا۔

سنہ 1957میں مہدی حسن کو ریڈیو پاکستان پر ٹھمری گانے کا موقع ملا۔ موسیقی برادری میں اس ٹھمری گائیکی نے مہدی حسن کو متعارف کرایا۔ وہ اردو شاعری کے بھی دلدادہ تھے۔ انہوں نے جز وقتی بنیاد پر غزل گائیکی شروع کردی۔ مہدی حسن کو اس وقت مقبولیت کی انتہا چھونے کا موقع ملا جب غزل گائیکی کے بڑے بڑے نامور استاد برکت علی خان، بیگم اختر اور مختار بیگم کا سکہ چل رہا تھا لیکن مہدی حسن اپنی محنت اور لگن سے ترقی کی منازل طے کرتے گئے اور آبروئے غزل بن گئے۔

غزل گائیکی میں ان کی شاندار خدمات کے عوض انہیں دنیا بھر میں متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں سب سے بڑے ایوارڈ 'نشان امتیاز' سے نوازا۔ حکومت نیپال نے انہیں 'گورکھا دکشنا باہو' کا ایوارڈ عطا کیا جب کہ بھارت میں انہیں 'سہگل ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ مہدی حسن کو موسیقی ورثے میں ملی تھی۔ وہ خود کو کلونت گھرانے کی سولہویں نسل کہتے تھے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ ریڈیو پر ان کی پہلی مشہور غزل 'گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے' تھی۔

فلمی گائیکی کی ابتدا فلم 'شکار' سے کی۔ انہوں نے موسیقی کو نئی سمت اور صنف غزل کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ معروف شاعر احمد فراز کی غزل، 'اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں' اور میر تقی میر کی غزل 'پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہماراجانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے' کو مہدی حسن نے اپنی سحر انگیز آواز کے ذریعہ بہت خوبصورت اور مترنم آواز میں لوگوں تک پہنچایا اور اس کے بعد تو لوگ ان کے دیوانے ہوگئے۔

مہدی حسن نے جس شاعر کی غزل کو اپنی آواز دی وہ شاعر بہت مقبول ہوا۔ احمد فراز کو بھی ان کی گائی ہوئی غزلوں سے خوب شہرت ملی۔ ایک واقعہ ان کے تعلق سے بہت مشہور ہے۔ وہ یہ کہ احمد فراز دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہے تھے۔ ذاتی مصروفیت کی وجہ سے وہ ایئر پورٹ پر تاخیر سے پہنچے۔ سکیورٹی والے انہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ جب سکیورٹی والے نے ان کے پاسپورٹ کو بنظر غائر دیکھا تو اس نے پوچھا کیا آپ وہی ''رنجش ہی سہی۔۔۔'' والے ہیں تو احمد فراز نے جواب دیا 'ہاں'۔ پھر کیا تھا ساری رکاوٹیں دور ہوگئیں اور سکیورٹی والوں نے نہ صرف ان کو باعزت طریقے سے جانے دیا بلکہ ان کا سامان جو مقررہ وزن سے زیادہ تھا، فری میں جانے دیا۔ احمد فراز کی غزل بہت عمدہ ہے لیکن مہدی حسن نے اس کو اپنی آوازسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور ہر شخص اس کا دیوانہ ہوگیا۔

ایک دفعہ احمد فراز سے لوگوں نے کہا کہ آپ بھارت کے کسی گلوکار کے لئے 'رنجش ہی سہی دل کو دکھانے کے لئے آ' جیسی غزل لکھ کر دیں تو احمد فراز نے جواباً کہاتھا کہ یارو میں ایسی ایک کیا دس غزلیں لکھ کر دے دوں مگر تم مہدی حسن جیسی ایک آواز کہاں سے لاؤ گے۔ ایسا خراج تحسین دنیائے غزل میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ وہ غزل کی آبرو تھے۔

مہدی حسن اور لتامنگیشکر کا ڈویٹ گانا 'تیرا ملنا' تو لوگوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہر خاص و عام کی زبان پر یہ گانا گنگنایا جانے لگا۔ اس گانے کی خاص بات یہ تھی کہ ڈویٹ ہونے کے باوجود اسے مہدی حسن اور لتامنگیشکر نے الگ الگ وقتوں میں گایا۔ مہدی حسن نے 2009 میں اس گانے کو پاکستان میں ریکارڈ کرایا جب کہ ملکہ ترنم لتامنگیشکر نے 2010میں اسے بھارت میں ریکارڈ کرایا۔ بعد میں اسے ڈویٹ کی طرح بنایاگیا۔اسے 'سرحدیں' نامی البم میں جاری کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ ان کا آخری نغمہ تھا۔

لتامنگیشکر نے مہدی حسن کے بارے میں کہا تھا کہ ' ان کے گلے سے بھگوان بولتا ہے' اور نور جہاں نے جب مہدی حسن کو سنا تو وہ ان کی گرویدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ جو لوگ سُر میں ہوتے ہیں، ان کے آباء و اجداد نے موتی دان کئے ہوں گے تبھی ان کے خاندان میں ایسا سریلا انسان پیدا ہوتا ہے۔ مہدی حسن ایسے ہی فن کار تھے جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے،مہدی حسن کی مشہور البموں میں کہنا ان سے، نذرانہ، انداز مستانہ، دل جو روتا ہے، کھلی جو آنکھ، صدائے عشق، سرحدیں، طرز اور نقش فریادی شامل ہیں۔

مہدی حسن کی جن غزلوں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا، ان میں آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر، آنکھوں سے ملی آنکھیں، پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، رنجش ہی سہی دل کو دکھانے کے لئے آ، آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اس کے بعد آئے جو عذاب آئے، اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، اے روشنیوں کے شہر، اپنوں نے غم دیا تو خدا یاد آگیا، بھولی بسری چند امیدیں، دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے، چلتے ہو تو چمن کو چلئے، چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے، دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے، رفتہ رفتہ وہ میری تسکیں کا ساماں ہوگئے، اک خلش کو حاصل عمرِ رواں رہنے دو، اک ستم اور مری جاں، ابھی جان باقی ہے، اک بار چلے آؤ پھر آکے چلے جانا، آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم، تم مجھے بھلاتو رہے ہو، بھلا نہ پاؤ گے، گلوں میں رنگ بھرے بادنو بہار چلے، دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں اور دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں وغیرہ شامل ہیں۔

مہدی حسن 13جون 2012 میں طویل علالت کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ 84 سالہ مہدی حسن طویل عرصہ سے فالج کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔ سانس لینے میں تکلیف کے سبب انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

مہدی حسن دنیائے موسیقی کا ایک ایسا باب ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے غزل گائیکی کو ایسا اسلوب عطا کیا جو کروڑوں لوگوں کے دلوں میں خوشبو کی طرح بس گیا۔ ایسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں بے شمار نغمے گائے۔ ان کی نغمگی میں ہر شخص ڈوب جاتا تھا۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سی کشش اورسحر تھا۔ مہدی حسن کی گائی ہوئی غزلیں ہمارے لئے بیش قیمتی تحفہ اور سرمایہ ہیں جن سے وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

غزلوں کو نغمگی اور دوام بخشنے میں مہدی حسن کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ ایسے فنکار تھے جن کی مترنم آواز اور اسلوب و موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ہر خاص و عام کو اپنا دیوانہ بنا ڈالا۔ دنیائے غزل کے اس شہرہ آفاق گلوکار نے جتنی بھی غزلیں گائیں وہ شاہکار بن گئیں۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، دنیائے غزل میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اردو غزلوں کو انہوں نے اپنی طلسماتی آواز کے ذریعے دنیائے موسیقی میں جو مقام عطا کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔

روح کو تازگی عطا کرنے والی ان کی آواز ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گی۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا جب مخملی آواز کے جادوگر جگجیت سنگھ ہم سے جدا ہوئے تھے اور ان کے بعد مہدی حسن کی جدائی نے غزل شوقین کو مایوس کردیا، اٹھارہ جولائی سنہ 1927 کو راجستھان کے لونا علاقے میں پیدا ہونے والے مہدی حسن نے غزل گائیکی کا آغاز کم عمری سے کردیا تھا۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں پہلی بار موسیقی پروگرام پیش کرکے سامعین کو مسحور کردیا۔

تقسیم ہند کے وقت مہدی حسن 20 برس کے تھے۔ ان کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کرگیا۔ ہجرت کے تمام مصائب ان کے ساتھ تھے۔ ان کے کنبے کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ گزر بسر اور پیٹ بھرنے کے لیے مہدی حسن نے ایک سائیکل کی دکان میں کام کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں وہ کار اور ڈیزل ٹریکٹر کے میکینک بن گئے۔ تمام مشکلات کے بعد موسیقی کے تئیں ان کا جذبہ سرد نہیں پڑا۔ انہوں نے روزمرہ کا ریاض جاری رکھا۔

سنہ 1957میں مہدی حسن کو ریڈیو پاکستان پر ٹھمری گانے کا موقع ملا۔ موسیقی برادری میں اس ٹھمری گائیکی نے مہدی حسن کو متعارف کرایا۔ وہ اردو شاعری کے بھی دلدادہ تھے۔ انہوں نے جز وقتی بنیاد پر غزل گائیکی شروع کردی۔ مہدی حسن کو اس وقت مقبولیت کی انتہا چھونے کا موقع ملا جب غزل گائیکی کے بڑے بڑے نامور استاد برکت علی خان، بیگم اختر اور مختار بیگم کا سکہ چل رہا تھا لیکن مہدی حسن اپنی محنت اور لگن سے ترقی کی منازل طے کرتے گئے اور آبروئے غزل بن گئے۔

غزل گائیکی میں ان کی شاندار خدمات کے عوض انہیں دنیا بھر میں متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں سب سے بڑے ایوارڈ 'نشان امتیاز' سے نوازا۔ حکومت نیپال نے انہیں 'گورکھا دکشنا باہو' کا ایوارڈ عطا کیا جب کہ بھارت میں انہیں 'سہگل ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ مہدی حسن کو موسیقی ورثے میں ملی تھی۔ وہ خود کو کلونت گھرانے کی سولہویں نسل کہتے تھے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ ریڈیو پر ان کی پہلی مشہور غزل 'گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے' تھی۔

فلمی گائیکی کی ابتدا فلم 'شکار' سے کی۔ انہوں نے موسیقی کو نئی سمت اور صنف غزل کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ معروف شاعر احمد فراز کی غزل، 'اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں' اور میر تقی میر کی غزل 'پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہماراجانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے' کو مہدی حسن نے اپنی سحر انگیز آواز کے ذریعہ بہت خوبصورت اور مترنم آواز میں لوگوں تک پہنچایا اور اس کے بعد تو لوگ ان کے دیوانے ہوگئے۔

مہدی حسن نے جس شاعر کی غزل کو اپنی آواز دی وہ شاعر بہت مقبول ہوا۔ احمد فراز کو بھی ان کی گائی ہوئی غزلوں سے خوب شہرت ملی۔ ایک واقعہ ان کے تعلق سے بہت مشہور ہے۔ وہ یہ کہ احمد فراز دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہے تھے۔ ذاتی مصروفیت کی وجہ سے وہ ایئر پورٹ پر تاخیر سے پہنچے۔ سکیورٹی والے انہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ جب سکیورٹی والے نے ان کے پاسپورٹ کو بنظر غائر دیکھا تو اس نے پوچھا کیا آپ وہی ''رنجش ہی سہی۔۔۔'' والے ہیں تو احمد فراز نے جواب دیا 'ہاں'۔ پھر کیا تھا ساری رکاوٹیں دور ہوگئیں اور سکیورٹی والوں نے نہ صرف ان کو باعزت طریقے سے جانے دیا بلکہ ان کا سامان جو مقررہ وزن سے زیادہ تھا، فری میں جانے دیا۔ احمد فراز کی غزل بہت عمدہ ہے لیکن مہدی حسن نے اس کو اپنی آوازسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور ہر شخص اس کا دیوانہ ہوگیا۔

ایک دفعہ احمد فراز سے لوگوں نے کہا کہ آپ بھارت کے کسی گلوکار کے لئے 'رنجش ہی سہی دل کو دکھانے کے لئے آ' جیسی غزل لکھ کر دیں تو احمد فراز نے جواباً کہاتھا کہ یارو میں ایسی ایک کیا دس غزلیں لکھ کر دے دوں مگر تم مہدی حسن جیسی ایک آواز کہاں سے لاؤ گے۔ ایسا خراج تحسین دنیائے غزل میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ وہ غزل کی آبرو تھے۔

مہدی حسن اور لتامنگیشکر کا ڈویٹ گانا 'تیرا ملنا' تو لوگوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہر خاص و عام کی زبان پر یہ گانا گنگنایا جانے لگا۔ اس گانے کی خاص بات یہ تھی کہ ڈویٹ ہونے کے باوجود اسے مہدی حسن اور لتامنگیشکر نے الگ الگ وقتوں میں گایا۔ مہدی حسن نے 2009 میں اس گانے کو پاکستان میں ریکارڈ کرایا جب کہ ملکہ ترنم لتامنگیشکر نے 2010میں اسے بھارت میں ریکارڈ کرایا۔ بعد میں اسے ڈویٹ کی طرح بنایاگیا۔اسے 'سرحدیں' نامی البم میں جاری کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ ان کا آخری نغمہ تھا۔

لتامنگیشکر نے مہدی حسن کے بارے میں کہا تھا کہ ' ان کے گلے سے بھگوان بولتا ہے' اور نور جہاں نے جب مہدی حسن کو سنا تو وہ ان کی گرویدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ جو لوگ سُر میں ہوتے ہیں، ان کے آباء و اجداد نے موتی دان کئے ہوں گے تبھی ان کے خاندان میں ایسا سریلا انسان پیدا ہوتا ہے۔ مہدی حسن ایسے ہی فن کار تھے جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے،مہدی حسن کی مشہور البموں میں کہنا ان سے، نذرانہ، انداز مستانہ، دل جو روتا ہے، کھلی جو آنکھ، صدائے عشق، سرحدیں، طرز اور نقش فریادی شامل ہیں۔

مہدی حسن کی جن غزلوں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا، ان میں آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر، آنکھوں سے ملی آنکھیں، پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، رنجش ہی سہی دل کو دکھانے کے لئے آ، آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اس کے بعد آئے جو عذاب آئے، اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں، اے روشنیوں کے شہر، اپنوں نے غم دیا تو خدا یاد آگیا، بھولی بسری چند امیدیں، دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے، چلتے ہو تو چمن کو چلئے، چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے، دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے، رفتہ رفتہ وہ میری تسکیں کا ساماں ہوگئے، اک خلش کو حاصل عمرِ رواں رہنے دو، اک ستم اور مری جاں، ابھی جان باقی ہے، اک بار چلے آؤ پھر آکے چلے جانا، آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم، تم مجھے بھلاتو رہے ہو، بھلا نہ پاؤ گے، گلوں میں رنگ بھرے بادنو بہار چلے، دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں اور دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں وغیرہ شامل ہیں۔

مہدی حسن 13جون 2012 میں طویل علالت کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ 84 سالہ مہدی حسن طویل عرصہ سے فالج کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔ سانس لینے میں تکلیف کے سبب انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

مہدی حسن دنیائے موسیقی کا ایک ایسا باب ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے غزل گائیکی کو ایسا اسلوب عطا کیا جو کروڑوں لوگوں کے دلوں میں خوشبو کی طرح بس گیا۔ ایسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں بے شمار نغمے گائے۔ ان کی نغمگی میں ہر شخص ڈوب جاتا تھا۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سی کشش اورسحر تھا۔ مہدی حسن کی گائی ہوئی غزلیں ہمارے لئے بیش قیمتی تحفہ اور سرمایہ ہیں جن سے وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.