نئی دہلی: خواتین کسی بھی میدان میں کمتر نہیں، اکیسویں صدی میں خواتین ادب کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شاہین باغ میں ڈریمس انڈیا ریسرچ فاؤنڈیشن Dreams India Research Foundation کے زیر اہتمام اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے منعقدo تقریب میں مقررین نے کیا۔
شاہین باغ کے گرین ٹریز پبلک اسکول میں منعقد '21ویں صدی کی خواتین فکشن نگار' پر یک روزہ سیمینار میں بطور مہمان خصوصی سماجی کارکن ہدایت اللہ جینٹل صدر آل انڈیا قومی تنظیم دہلی نے کہا کہ خواتین کسی بھی میدان میں کم نہیں ہیں ادب میں بھی خواتین بڑھ چڑھ کر کام کررہی ہیں، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
انہو نے کہا کہ 1938 میں پروگریسیو رائٹر ایسوسی ایشن Progressive writers Association کے الٰہ آبادکے ایک کانفرنس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ فنکار اور ادیب کی ایک الگ پہچان ہوتی ہے اور جس فنکارمیں یہ پہچان نہیں میں اسے فنکار نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی میدان میں انقلاب لانے کے لیے ادیب اور شاعر کی ذمہ داری ہے ہرمیدان میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اگر فکشن میں دیکھا جائے تو خواتین کم نہیں ہے۔
اس موقع پر بہارکانگریس اقلیتی شعبہ کے نائب ریاستی صدر سیدشبلی منظور نے کہا کہ اردو کسی ایک کمیونٹی کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ زبان ہر ہندوستانی کی ہے، اس پر سیاست کی جارہی ہے اور اس زبان کو لے کر عوام کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی شیرینی آج بھی برقرار ہے اور اس میں جو ادبا کام کررہے ہیں وہ نئی نسل کے لیے ایک پیغام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو زبان میں انہوں نے پڑھائی نہیں کی، لیکن گھر کا ماحول اردو ہونے کی وجہ سے وہ اردو اچھی طرح پڑھ لکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر اردو کو ترقی دینی ہے تو گھر کا ماحول اردو بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی پیدائش اسی ملک سے ہوئی ہے اگر اس کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تو نئی نسل کو اس کے بارے میں بتانا ہوگا تبھی اس زبان کو مزید ترقی مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگ فکشن کی بات کرتے ہیں اس ملک میں خواتین کی تعداد نصف کے قریب ہے، اگر بات کریں تو آدھی تخلیقی صلاحیت عورتوں کے پاس ہے اگر ان کی تخلیقات ک منظر عام پر لایا جائے تو اردو کو لیے بڑا کام ہوسکتا ہے۔ مہمان اعزازی حقانی القاسمی شریک تھے، سمینار کی صدارت ڈاکٹر خان محمد آصف ایسوسی ایٹ پروفیسر گوتم بدھ یونیورسٹی ، نوئیڈا یوپی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر خان رضوان نے انجام دیئے۔خیر مقدمی کلمات زبیر خان سعیدی نے ادا کیے۔ اس کے علاوہ انبساط رانا چیئر مین ڈریمس انڈیا ریسرچ فاؤنڈیشن بھی موجود تھے۔
اس موقع پر مہمان خصوصی اور سماجی کارکن ہدایت اللہ جینٹل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ 21ویں صدی اردو کے لئے کافی مشکل دور ہے۔اس کے باوجود اس کے پرچم کو ادباء شعراء وغیرہ بلند کیے ہوئے ہیں، یہ قابل تحسین عمل ہے۔ خان محمد آصف نے صدارتی خطبے میں کہاکہ عورت کا تعلق فطرف اور تخلیقیت سے ہے۔ مرد جو کچھ تخلیق کا اظہار کرتا ہے اس کا مقصد تسخیر ہوتا ہے۔ جبکہ عورت فطرت کے مطابق تخلیق کرتی ہے۔ عورت مٹی سے مٹی نکال کر متن کے چاک پر رکھتی ہے۔
معروف ادیب ونقاد حقانی القاسمی نے کہاکہ زمانہ بدلتا ہے تو احساس و اظہار کے زاویہ بھی بدل جاتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب خواتین چاکِ نفس سے باغ کی دیوار دیکھا کرتی تھیں، مگر اب پوری دنیا ہی عورتوں کے لئے باغ وبہار ہے۔ اب عورت بہت حد تک آزاد بھی ہے۔
ڈاکٹر سعودعالم نے 21ویں صدی کی خواتین فکشن نگار: ایک جائزہ کے موضوع پر اپنے مقالے میں کہاکہ خواتین تخلیق کار اپنے جذبات کی ترجمانی فکشن کے ذریعے بہتر طریقے سے کرسکتی ہے۔ ساجدہ خاتون نے اکیسویں صدی کی خواتین ناول نگار: ایک جائزہ کے عنوان سے اپنے مقالے میں کہاکہ اردو فکشن نگاری کی دنیا میں ناول کو اہم مقام حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کی ناول نگاری کی ابتدا 19ویں صدی کی آخری دہائی میں ہوئی۔ غزالہ فاطمہ نے ترنم ریاض کی تانیثی فکر کے عنوان سے کہاکہ ترنم ریاض کسی مکتبہ فکر سے وابستہ نہیں تھیں، لیکن ان کی کہانیوں میں استحصال کا موضوع سب سے نمایاں ہے۔ ریسرچ اسکالر عبد الباری قاسمی نے نعیمہ جعفری پاشا کی فکشن نگاری، ڈاکٹر نوشاد منظر 21ویں صدی میں خواتن اردو افسانہ نگارہندوستان کے تناظر میں، ۔ڈاکٹر مسرت نے غزالہ قمر اعجاز کا افسانوی فن، آسیہ خان نے 21ویں صدی کی خواتین فکشن نگار کے موضوع پر اپنا مقالہ پش کیا۔
- مزید پڑھیں: Bulli Bai-Sulli Deals cases: دہلی پولیس نے بُلّی بائی اور سُلی ڈیل معاملے میں چارج شیٹ داخل کی
اس کے علاوہ اس کے علاوہ پروفیسر عبد الحئی، ڈاکٹر سرفراز جاوید، ڈاکٹر امتیاز علیمی نے بھی مقالہ پش کیا۔ آخر میں آسیہ خان نے ڈاکٹر عقیل صاحب ڈائریکٹر قومی کونسل کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ اظہار تشکر سلام الدین خان نے پیش کیا۔