بھارت جیسے وسیع جمہوی ملک میں انتخابات کا انعقاد کسی کمبھ میلے سے کم نہیں ہوتا ہے۔ انتخابی عمل، جو اصل میں ایک مقدس عمل ہے اور اس میں عقیدت کے ساتھ شرکت کی جانی چاہیے تھی، بدقسمتی سے جمہوری اقدار کی پامالی کا سبب بن رہا ہے۔
1990ء کی دہائی میں ٹی این سیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ سنبھالے جانے کے بعد، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار تنزل کا شکار ہوتے گئے ہیں۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ انتخابی عمل کی زوال پذیری کا ایک سبب یہ ہے کہ الیکشن کمیشین کی تقرری کے حوالے سے سیاسی مصلحتیں پیش نظر رکھنا ایک معمول بن گیا ہے۔
گوا سرکار کی جانب سے سٹیٹ لا سیکرٹری کو سٹیٹ الیکشن کمشنر کا اضافی چارج دیئے جانے پر سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ کے تاثرات انمول ہیں۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ نے ایک موقعے پر واضح کیا تھا کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے سٹیٹ الیکشن کمیشن کو بھی ویسے ہی اختیارات حاصل ہیں، جو سینٹرل الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں۔
سٹیٹ الیکشن کمیشنر پنچایتی اور میونسپل انتخابات، جو جمہوریت کی بنیادی سطح سے متعلق ہوتے ہیں، کا انعقاد کراتا ہے۔ تاہم گندی سیاست نے سٹیٹ الیکشن کمیشن کی ادارتی حیثیت کا تقدس پامال کررہی ہے۔
اپنے تازہ تاثرات میں سپریم کورٹ نے ملک کے تمام ریاستی الیکشن کمشنروں، جو اس وقت چارج سنبھالے ہوئے ہیں، کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین یا بیروکریٹوں کو بطور الیکشن کمیشنر تعینات نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے ان تاثرات کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی الیکشن کمشنروں، جو آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کرانے کے ذمہ دار ہیں، کی خود مختاری کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمشنروں کی تقرری کے پورے عمل میں اصلاحات لائی جانی چاہیں۔
امبیڈکر، جو آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کے بانی رہے ہیں، کی خواہش تھی کہ الیکشن کمشنروں کی تقرری کا ایک خصوصی میکانزم اختیار کیا جائے۔ اُن کی اس خواہش پر دھیان نہیں دیا گیا اور نتیجے کے طور پر آج الیکشن کمشنروں کی تقرری کے حوالے سے تمام طرح کی برائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر مسٹر ایم ایس گِل نے کہا تھا کہ تمام تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کو اپنے گرد ایک حصار ڈالنا چاہیے اور اپنے آئینی اخلاقی اقدار سے انحراف کئے بغیر خود کو اس حصار کے بیچ میں رکھنا چاہیے۔
اس طرح کے کسی بے باق شخص کو الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات کےلئے ہمارے ملک میں آج کوئی میکانزم موجود نہیں ہے بلکہ اس عہدے پر کسی کو فائز کرنے کا اختیار سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے، جو انہیں یہ موقعہ فراہم کرتا ہے کہ وہ کسی ہاں میں ہاں ملانے والے شخص کو اس اہم عہدے پر بٹھاسکتے ہیں۔
سال 2017ء میں مرکزی سرکار نے پارلیمنٹ میں یہ واضح کردیا تھا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے باقی جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی وہ کوئی ایسا مختلف جماعتوں سے وابستہ اراکین پر مشمتمل کسی گروپ کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کرانے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔
سال 2012ء میں بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے ایڈوانی نے خود کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار کی وجہ سے بدعنوانیوں کا احتمال ہے اسلئے اپوزیشن جماعتوں کو بھی کمپٹرولر آڈیٹر جنرل اور چیف الیکشن کمشنر جیسے عہدوں پر تقرریاں عمل میں لانے میں شریک کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح کی سفارشات سال 2006ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر ٹنڈن اور سال 2009ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنروں نے بھی کی تھیں۔ سال 2015ء میں لاء کمیشن نے بھی الیکشن کمشنروں کی تقرری کےلئے وزیر اعظم، قائد حزبِ اختلاف اور چیف جسٹس پر مشتمل کولیجم قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔
الیکشن کمیشن کی تقرری کے حوالے سے حکمران جماعت کے فیصلہ سازی کا یکطرفہ حق ختم کرنے کے مطالبے کو اس وجہ سے بھی ایک جواز حاصل ہے کیونکہ اس عہدے پر تقرریاں عمل میں لانے کے اختیار کا مسلسل غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
کینیڈا میں ہاوس آف کامنز میں قرار داد کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری عمل میں لانے کا طریقہ کار رائج ہے۔ اس طرح سے اس عہدے پر فائز ہوجانے والا شخص ملک کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی اسی طرح کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے۔
اگر انتخابی عمل پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا مطلوب ہے تو الیکشن کمیشنروں کی تعیناتی کے نظام میں مکمل اصلاحات لانی ہونگیں۔ ملک میں فوری طور پر خود مختار الیکشن کمیشنروں، جو آئینی تقاضوں کو بھر پور طریقے سے پورے کرنے کے اہل ہوں، کی تقرری کا نیا نظام متعارف کیا جانا چاہیے۔