مرکزی حکومت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پانچ سال کی مدت کے لیے فوری طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکومت نے پی ایف آئی کے علاوہ ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن (آر آئی ایف)، کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی)، آل انڈیا امام کونسل (اے آئی آئی سی)، نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (این سی ایچ آر او)، نیشنل ویمن فرنٹ، جونیئر فرنٹ، ایمپاور انڈیا فاؤنڈیشن اور ری ہیب فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ Political leaders demand ban on RSS and Bajrang Dal
مرکزی حکومت کی جانب سے پی ایف آئی پر عائد کی گئی پابندی سے متعلق سیاسی رہنماوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آر ایس ایس اور بجرنگ دل پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں بہار حکومت کے اقلیتی بہبود کے وزیر زماں خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ مرکزی حکومت ایک خاص مذہب کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پی ایف آئی کے خلاف پابندی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ پی ایف آئی کی طرح آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان کوڈیکونِل سریش نے آر ایس ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور پی ایف آئی دونوں برابر ہیں، اس لیے حکومت کو دونوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ صرف پی ایف آئی ہی کیوں؟ اس سے پہلے کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجے سنگھ نے کیرالہ میں پی ایف آئی کی جانب سے بند کے دوران تشدد کی مذمت کرتے ہوئے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے اِس طرح کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں:۔ PFI Ban For Five Years پی ایف آئی پر پانچ سال کے لئے پابندی عائد
PFI Ban In India حکومت پی ایف آئی پر عائد کرسکتی ہے پابندی، ذرائع
وہیں سابق مرکزی وزیر اور بھاجپا رہنما مختار عباس نقوی نے حکومت کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مذہب کا غلط استعمال کرکے ملک کی سالمیت کو خطرہ پہنچانے کو کوشش کرتے ہیں، حکومت نے ان کے خلاف سخت قدم اٹھا کر ملک اور عوام کے حق میں بہتر فیصلہ کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مقتدر مسلم رہنماؤں اور تنظیموں نے پابندی کے اس فیصلے کے ردعمل میں بیانات جاری کرنے سے احتراز کیا ہے۔کئی رہنماؤں کے ساتھ جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندوں نے رابطہ کیا تو انہوں نے اس اقدام پر اپنی رائے دینے سے انکار کیا۔
واضح رہے کہ 22 ستمبر اور 27 ستمبر کو این آئی اے، ای ڈی اور ریاستی پولیس نے پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے۔ چھاپوں کے پہلے دور میں پی ایف آئی سے وابستہ 106 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ چھاپوں کے دوسرے دور میں پی ایف آئی سے تعلق رکھنے والے 247 افراد کو گرفتار اور حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد تفتیشی ایجنسیوں نے وزارت داخلہ سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی سفارش پر وزارت داخلہ نے پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔