نئی دہلی: گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کو دیے گئے 80 منٹ کے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ جی 20 اجلاسوں کی میزبانی کرنا بھارت کے لیے فخر کی بات ہے اور کشمیر میں جی 20 اجلاسوں کے انعقاد پر چین اور پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو کشمیر یا اروناچل پردیش سمیت ملک میں کہیں بھی اجلاس منعقد کرنے کا حق حاصل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جی ٹوئنٹی عالمی جی ڈی پی کا 85 فیصد، بین الاقوامی تجارت کا 75 فیصد اور دنیا کی آبادی کا 65 فیصد ہے۔ بھارت نے گزشتہ نومبر میں انڈونیشیا سے G-20 کی صدارت سنبھالی تھی، اور دسمبر میں برازیل کو سونپ دی جائے گی۔
واضح رہے کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے متعدد رہنما جیسے امریکی صدر جو بائیڈن، جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا، برطانوی وزیر اعظم رشی سنک، سعودی عرب کے بادشاہ محمد بن سلمان اور دیگر رہنما نو تعمیر شدہ بھارت منڈپم کانفرنس ہال میں 9 سے 10 ستمبر کو سالانہ اجلاس کے لیے جمع ہوں گے۔ جی 20 سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی میزبانی سے ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ 'سب کا ساتھ سب کا وکاس' ماڈل دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے رہنما اصول ثابت ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ جب بھارت G20 کا صدر بنا تو دنیا کے لیے ہمارے الفاظ اور وژن کو محض خیالات کے طور پر نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ جی 20 کی وزارتی اور دیگر میٹنگیں نہ صرف دارالحکومت نئی دہلی میں بلکہ ملک کے تمام حصوں میں منعقد ہوئیں، انہوں نے کہاکہ جی 20 اجلاسوں کی بھارتی صدارت کا مثبت اثر پڑے گا۔
اپنی حکومت کے نو سالوں کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کو سیاسی استحکام کی وجہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے پیش گوئی کی کہ 2047 تک بھارت، بدعنوانی اور ذات پات سے پاک ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا جہاں بدعنوانی اور فرقہ واریت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ G20 کی ہماری چیئرمین شپ کے دوران وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنرز کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مرکزی بینکوں کے لیے اپنے پالیسی موقف کے بارے میں بروقت اور واضح معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ افراط زر کو کم کرنے کے لیے ہر ملک میں اٹھائے گئے پالیسی اقدامات کے دوسرے ممالک پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔
بھارت ایک بار پھر عروج پر ہے: ایک ایسے وقت میں جب زیادہ تر ترقی یافتہ معیشتوں کو معاشی سست روی، شدید قلت، بلند افراط زر اور اپنی آبادی کی عمر بڑھنے کا سامنا ہے وہیں بھارت سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے جس میں نوجوانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ مودی نے کہا کہ عالمی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک بھارت دنیا کی سرکردہ معیشتوں میں سے ایک رہا ہے۔ بعد میں استعمار کے اثر کی وجہ سے ہماری عالمی رسائی کم ہوتی گئی، لیکن اب بھارت ایک بار پھر آگے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم آج دنیا کی 10ویں سب سے بڑی معیشت سے پانچویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے کام کو بخوبی انجام دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مالی سال 2021-22 کے اختتام پر بھارت نے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کر لیا تھا، جس نے برطانیہ کو 3.39 ٹریلین ڈالر کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اب بھارت سے آگے صرف امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی ہیں۔
سیاسی استحکام کی وجہ سے گزشتہ نو سالوں میں بہت سی اصلاحات کی گئیں: وزیراعظم نے کہا کہ 2014 سے پہلے تین دہائیوں میں ملک میں کئی ایسی حکومتیں آئیں جو غیر مستحکم تھیں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ کام نہیں کر سکیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں لوگوں نے فیصلہ کن مینڈیٹ (بی جے پی کو) دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ایک مستحکم حکومت ہے۔ اس استحکام کی وجہ سے پچھلے نو سالوں میں بہت سی اصلاحات نافذ کی جا سکیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اصلاحات نے معیشت، تعلیم، مالیاتی شعبے، بینکوں، ڈیجیٹلائزیشن، فلاح و بہبود، شمولیت اور سماجی شعبے سے متعلق ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی تیز رفتار اور مستحکم ترقی نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ بہت سے ممالک ہماری ترقی کی کہانی کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
ہماری ترقی کوئی حادثہ نہیں ہے: پی ایم مودی نے کہا کہ ان ممالک کو یقین ہے کہ ہماری ترقی کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ اصلاح، کارکردگی اور تبدیلی کے واضح اور عمل پر مبنی روڈ میپ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے بھارت کو ایک ارب سے زیادہ بھوکے پیٹوں کا ملک سمجھا جاتا تھا۔لیکن اب بھارت ایک ارب سے زیادہ خواہشمند ذہنوں، دو ارب سے زیادہ ہنر مند ہاتھوں اور لاکھوں نوجوانوں کا ملک سمجھا جاتا ہے۔
100 سے زیادہ یونی کارن والا بھارت: پی ایم مودی نے کہا کہ 100 سے زیادہ یونی کارن کی موجودگی والا بھارت اسٹارٹ اپ کمپنیوں کا تیسرا سب سے بڑا مرکز ہے اور خلا کے میدان میں اس کی کامیابیوں کا آج پوری دنیا میں جشن منایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کے تقریباً تمام کھیلوں کے مقابلوں میں پرانے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ ہر سال زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیاں دنیا کے معروف تعلیمی اداروں میں شامل ہو رہی ہیں۔ یونی کارن سے مراد ایک بلین ڈالر سے زیادہ کی قیمت والے اسٹارٹ اپس ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اس رفتار کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ ہم مستقبل قریب میں دنیا کی سب سے بڑی تین معیشتوں میں شامل ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ 2047 تک ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے ناطے بھارتی معیشت زیادہ جامع اور اختراعی ہوگی، غریب لوگ غربت کے خلاف جنگ جیتیں گے اور ملک کے صحت، تعلیم اور سماجی شعبے دنیا کی بہترین معیشتوں میں شامل ہوں گے۔ مودی نے اپنے انٹرویو یہ بھی کہا کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی، ذات پرستی اور فرقہ پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ہمارے لوگوں کا معیار زندگی دنیا کے سرکردہ ممالک کے برابر ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم فطرت اور ثقافت دونوں کا خیال رکھ کر یہ مقام حاصل کریں گے۔
دیگر شریک ممالک نے بھارت کی صدارت پر اعتماد ظاہر کیا: مودی نے کہا کہ یہ کانفرنس ممالک اور دائرہ اختیار کو بین الاقوامی ٹیکس نظام میں تاریخی، بڑی اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دے گی۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے معاملات پر کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ بھی اسی یقین کا نتیجہ ہے جو دوسرے پارٹنر ممالک نے بھارت کی چیئرمین شپ میں دکھایا ہے۔
انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی رفتار میں تیزی: مورگن اسٹینلے نے ایک حالیہ رپورٹ میں مودی حکومت کے نو سال کو تبدیلی سے بھرپور بتایا ہے۔اس کے علاوہ کارپوریٹ ٹیکس کو دوسرے ممالک کے برابر لانا، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی رفتار میں اضافہ، گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی وصولی میں اضافہ اور جی ڈی پی میں ڈیجیٹل لین دین کے بڑھتے ہوئے حصہ کو اہم اقدام قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم نے دنیا کی بدلتی ہوئی حقیقتوں کے مطابق اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے بھی ایک مضبوط موقف پیش کیا اور کہا کہ 20ویں صدی کے وسط کا انداز 21ویں صدی میں دنیا کی خدمت نہیں کر سکتا۔ مودی نے یہ بھی کہا کہ بھارت افریقی یونین کو G20 کے مکمل رکن کے طور پر شامل کرنے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ تمام آوازوں کی نمائندگی اور پہچان کے بغیر کرہ ارض کے مستقبل کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔