لکھنؤ: اتر پردیش کے لکھنؤ میں ممتاز پی جی کالج کے مولانا علی میاں ہال میں آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی یوم پیدائش کو قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع پر کالج کے پرنسپل پروفیسر نسیم احمد خان نے مہمان خصوصی پروفیسر مشیر حسین صدیقی صدر شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی اور سینیئر صحافی پریم کانت تیواری کا استقبال کیا۔ کالج کی تینوں فیکلٹیز کے طلباء وطالبات نے پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ Maulana Abul Kalam Azad's Birth Anniversary
اس موقع پر تقریری مقابلے میں طلبہ نے ملک کی آزادی اور تعلیم کے لیے مولانا آزاد کی خدمات پر اپنی تقاریر پیش کیں۔ کامیاب طلبہ وطالبات میں زینب جنید (اول )، اعجاز الرحمن (دوم)، امتیاز احمد (سوم)، محمد جنید (کنسولیشن ) انعام دیا گیا۔ مہمان خصوصی پروفیسر مشیر حسین صدیقی نے مولانا آزاد کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا آزاد کے تعلیمی میدان میں کئے گئے کاموں، قائم کیے گئے اداروں اور اداروں کی مثبتیت کا ذکر کیا۔National Education Day held in Lucknow
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا آزاد جیسا ایک شخص صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے مولانا آزاد کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ایک بار وائسرائے ہند مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کرنے ان کے گھر آتا ہے اور اس کے ساتھ ترجمان بھی آتا ہے، جو انگریزی کا ترجمہ کر کے مولانا آزاد کو سناتا ہے اور مولانا کی گفتگو کا ترجمہ کر کے وائسرائے کو سناتا ہے ،ہوا کچھ یوں کہ ترجمان انگریزی کا ترجمہ کچھ درست نہ کر سکا، جس پر مولانا آزاد نے اس سے کہا یہ اس طرح نہیں ،اس طرح ہے۔ گفتگو کے اختتام پر وائسرائے ہند نے مولانا سے فرمایا آپ کو انگریزی آتی ہے تو انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کی ؟
مولانا آزاد نے بڑا عجیب جواب دیا، کہا کہ آپ پانچ سو میل دور سے آکر اپنی زبان نہیں چھوڑتے، میں اپنے ہی گھر میں کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں۔ یہ اقتباس ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو انگریزی کے دو لفظ سیکھ کر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس موقع پر کارگزار پرنسپل پروفیسر نسیم خان نے کہا کہ مولانا آزاد نے جدید تعلیم پر بہت زور دیا۔ مولانا آزاد کی ہمہ جہتی شخصیت اور اس وقت کے مسائل سے نمٹنے کے ان کے طریقوں پر گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ وطن کی آزادی کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے۔ گاندھی جی ان کی ذہانت، قابلیت اور تدبر کو مانتے تھے۔ جواہر لال نہرو ان کو بڑا بھائی کہتے تھے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابو الکلام آزاد کو بھارت کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وزیر تعلیم، کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ بھارت میں تعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کاکام بخوبی انجام دے سکیں۔
پروگرام میں سینیئر صحافی پریم کانت تیواری نے بھی مولانا آزاد کی خدمات اور ملک کی آزادی کے لئے ان کی بھرپور حصے داری کا ذکر کیا۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر بھارتی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔ آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کیلئے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ کا قیام کیا او رملک بھر میں تکنیکی تعلیم کے نئے شعبہ قائم کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی: مولانا ابوالکلام آزاد کا نیشنلزم پر زیادہ زور تھا
پروگرام کے آرگنائزر ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی نے کہا کہ مولانا آزاد نے تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت وحرفت کو بھی اہل وطن کیلئے ضروری قرار دیا۔ سنہ 1956ء میں انہوں نے UGC کو قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ پروگرام کی نظامت شعبۂ عرب کلچر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر حسین صدیقی نے کی۔ اس موقع پر کالج کا تمام تعلیمی و غیر تدریسی عملہ اور طلباء کی کثیر تعداد موجود رہی۔