ETV Bharat / bharat

Muslim Personal Law Board on UCC بھارتی مسلمان اپنی شریعت سے دستبردار نہیں ہوسکتے، یو سی سی پر مسلم پرسنل لا بورڈ کا جواب

لاء کمیشن کے نوٹس پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں اپنے اعتراضات درج کرا دیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی مسلمان اپنی شریعت اور شناخت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں کی مذہبی اساس، قرآن مجید، سنت رسول اور فقہ (اسلامی قانون) ہے جس کو بھارت کے دستور کی دفعہ 25 اور 26 سے تحفظ حاصل ہے۔

Muslim Personal Law Board's response to the Law Commission on UCC
بھارتی مسلمان اپنی شریعت سے دستبردار نہیں ہوسکتے، یو سی سی پر مسلم پرسنل لا بورڈ کا جواب
author img

By

Published : Jul 6, 2023, 7:39 PM IST

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کل شام لاء کمیشن کے نوٹس پر اپنے اعتراضات درج کرا دیئے، جس نے ملک کی مذہبی تنظیموں اور شہریوں سے نمائندگی کی شکل میں ’یکساں سول کوڈ کے بارے میں خیالات اور نظریات‘ داخل کرنے کی درخواست کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ’’ یونیفارم سول کوڈ پر لاء کمیشن کے بارے میں ہمارا جواب 5 نکات پر مبنی ہے، جس میں 1۔ ابتدائی ایشوز 2۔ اکیسویں لاء کمیشن پر ہمارا جواب اور رپورٹ 3۔ یکساں سول کوڈ پر ہمارے اعتراضات کے دلائل 4۔ موجودہ سول قوانین کا جائزہ اور 5۔ جوابات کا خلاصہ شامل ہیں۔

جواب کے پہلے حصے میں، بورڈ نے ابتدائی اعتراضات کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں کہا گیا کہ لاء کمیشن کا نوٹس بہت مبہم، عمومی اور غیر واضح ہے۔ متعلقہ حصہ میں کہا گیا کمیشن کے سوال میں تجاویز کی شرائط غائب ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ایشو کو پبلک ڈومین میں محض اس لیے ڈالا گیا تاکہ اس پر ریفرنڈم کروایا جا سکے اور کوشش یہ کی گئی کہ عام لوگوں کا ردعمل بھی کمیشن تک مبہم الفاظ میں یعنی 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہی پہنچ سکے۔ متعدد وجوہات کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باوجود یہ کہ یہ مسئلہ خالصتاً قانونی ہے تاہم سیاست اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے لئے اس کی حیثیت چارہ کی بھی ہے۔

یہ مسئلہ اس لئے بھی مزید اہم ہو جاتا ہے کہ اس پر سابقہ لاء کمیشن نے جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ 22ویں لاء کمیشن کو اس پر عوامی رائے لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جب کہ اس کے پاس کوئی بلیو پرنٹ بھی نہیں ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ کمیشن کا ارادہ کیا ہے۔

مسلمانوں کی مذہبی اساس، قرآن مجید، سنت رسول اور فقہ (اسلامی قانون) ہے جس کو بھارت کے دستور کی دفعہ25 اور 26 سے تحفظ حاصل ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن و سنت میں بیان کئے گئے احکام پر عمل کریں۔ اسلام کے پیروکار بھی اپنے آپ کو ان احکام کے پابند سمجھتے ہیں اور یہ تمام امور ناقابل تبدیل شرائط ہیں۔ مسلمانوں کے ذاتی و اجتماعی تعلقات، ان کے خاندانی معاملات و شخصی قوانین بھی، براہ راست قرآن و سنت (اسلامی قوانین) سے ماخوذ ہیں اور یہ پہلو ان کی بنیادی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بھارت کے مسلمان اس شناخت سے دست بردار ہونے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو سکتے نیز اس کی ہمارے ملک کے آئینی دائرے میں پوری گنجائش بھی ہے۔ اگر ہم اقلیتوں اور قبائلی طبقات کو ان کے پرسنل لاء اور رواجی قانون کے تحت زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں تو گویا اپنے ملک کے تنوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور اس سے ملک کی سالمیت، تحفظ، سلامتی اور بھائی چارے کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

جواب کے دوسرے حصے میں، بورڈ نے اس مسئلہ پر 21 ویں لاء کمیشن کو دیئے گئے اپنے تفصیلی جواب کو دہرایا اور اس کو بھی اس دستاویز کے ساتھ منسلک کر دیا۔

جواب کے تیسرے حصے میں ملک کی تکثیری حیثیت، وسیع تنوع اور کثیر ثقافتی حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی مزید براں اس حصہ میں سیکولرازم، حقوق نسواں اور مساوات کے اصول، قومی یکجہتی اور سپریم کورٹ کے مشاہدات سے پیدا شدہ مسائل پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا۔ خلاصہ کے طور پر اس میں کہا گیا؛ ’’ملک کے مختلف طبقات کے ذریعہ متعدد پرسنل لاء اور روایتی قوانین پر عمل در آمد در اصل آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 29 مذہبی و ثقافتی حقوق کے مطابق ہے۔ مختلف طبقات، مذہبی اکائیوں اور قبائل کے مذہبی و ثقافتی اصولوں کے مطابق ایسے قوانین کا ان پر اطلاق ہمارے ملک کی مضبوط جمہوریت اور تنوع کی روشن مثال کے جشن کے طور پر منایا جانا چاہیے“۔

جواب کے چوتھے حصے میں، موجودہ سول قوانین اور اس کی نام نہاد یکسانیت پر بحث کی گئی۔ جواب میں کہا گیا کہ، ’’ہم یہ حقائق اس بات کی نشاندہی کے لیے پیش کر رہے ہیں کہ موجودہ قوانین میں بھی مذہبی اصولوں اور رسوم و رواج اور قبائلی استثنیٰ کی عکاسی جھلکتی ہے جس سے مذہبی و ثقافتی تنوع اور رسوم و رواج کی ناقابل تنسیخ پوزیشن واضح اور متیعن ہو جاتی ہے جس کو اس طرح کے ضابطوں (یونیفارم سول کوڈ) کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ممکنہ یونیفارم سول کوڈ کے دائرہ کار اور نوعیت کا تجزیہ کرنے کا کام بھی موجودہ عائلی قوانین کے تناظر میں ہی کیا جا سکتا ہے— عمومی اور ذاتی دونوں حیثیت سے۔ اس تجزیہ کی دو بنیادیں ہوسکتی ہیں:

‏(a)کیا موجودہ عمومی/یکساں خاندانی قوانین واقعی یکساں ہیں؟

‏(b)کیا موجودہ کوڈیفائیڈ کمیونٹی پر مبنی ذاتی قوانین یکساں ہیں؟

پھر بورڈ نے موجودہ سول قوانین کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ عمومی / یکساں خاندانی قوانین صحیح معنوں میں یکساں نہیں ہیں، یہاں تک کہ موجودہ کوڈیفائیڈ قوانین بھی یکساں نہیں ہیں۔ بھارت میں جسے یونیفارم عائلی قانون کہا جاتا ہے وہ ہرگز بھی یکساں نہیں ہے۔ جیسے Special Marraige Act، جس کو نہ صرف اکثریت کے قوانین مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے بلکہ اس میں روایتی قوانین کے لیے استثنیٰ بھی فراہم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جواب کے آخری حصہ میں بورڈ نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ بظاہر جواب آسان لگتا ہے لیکن یہ پیچیدگیوں اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ ان پیچیدگیوں کا احساس آئین ساز اسمبلی نے 1949 میں اس وقت کیا تھا جب یونیفارم سول کوڈ پر اسمبلی میں بحث ہوئی تھی۔ آئین ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر تفصیلی بحث ہوئی تھی۔ بحث میں مسلمانوں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ پر شدید مخالفت ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر ہمیں بحث کے اختتام پر ڈاکٹر امبیڈکر کی طرف سے دی گئی وضاحت کو یاد رکھنا مناسب ہو گا،” یہ بالکل ممکن ہے کہ مستقبل کی پارلیمنٹ اس پر آغاز کرتے ہوئے یہ انتظام کرے کہ یہ ضابطہ صرف اور صرف ان لوگوں پر لاگو ہوگا جو یہ اعلان کریں کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں، تاکہ ابتدائی مرحلے میں ضابطہ کا اطلاق خالصتاً رضاکارانہ ہو“۔

ہمارے ملک کی سب سے اہم دستاویز دستور ہند میں بھی یکسانیت نہیں ہے، تاکہ ملک کے اتحاد کو برقرار رکھا جاسکے۔ مختلف علاقوں، قوموں، برادریوں کے اصول و ضوابط کو آئین نے قبول کیا ہے، محض یکسانیت کے نام پر مروجہ اصول و ضوابط، رواج و رسومات کو کل عدم نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ دوسری طرف ملک کے مسلمہ قوانین و ضوابط میں بھی پورے ملک میں یکسانیت نہیں ہے۔ یکسانیت کا ہوّا کھڑا کر نے والوں سے یہ سوال بھی کیا جانا ضروری ہے کہ کیا محض یکسانیت کے نام پر صدیوں سے سماج میں رائج پرسنل لاز اور ریتی رواج کو اکھاڑ پھینکا جائے گا جب کہ ملک کے مسلمہ قوانین اور نام نہاد یونیفارم قوانین بھی یکسانیت سے عاری ہیں۔

گوا کا سول قانون بھی تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ ملک کے دستور میں بھی مختلف طبقات اور علاقوں کی رعایت کی گئی ہے۔ ملک کا سول قانون (.IPC and Cr.Pc) پورے ملک میں یکساں نہیں ہے۔ ریاستوں نے اس میں سو سے زائد ترمیمات کر رکھی ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ جو کہ ہندوؤں کے عائلی قانون کو منضبط کر نے کے لئے بنایا گیا تھا، تضادات اور تنوع کا مجموعہ ہے- مختلف ذاتوں و طبقات کو کئی معاملات میں استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ بھی اپنے تحت شادی کر نے والوں کو ہندو سکسیشن ایکٹ کی راہ دکھاتا ہے اور رواجی قوانین کو دھندلا کر دیتا ہے۔ مختلف قوانین میں جو تنوع و تضادات ہیں، یہاں ان کی محظ چند مثالوں پر اتفاق کیا گیا۔ اکثریتی زعم کو پرسنل لاز، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق پر یونیفارم سول کوڈ کے نام پر حاوی نہیں کیا جانا چاہیے۔

21 ویں لاء کمیشن کے ذریعہ تیار کردہ مشاورتی رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکومت نے اس پر مکمل خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ کیا اس نے اسے کلی طور پر یا جزوی طور پر قبول کیا ہے؟ نہ ہی حکومت نے یہ بتایا ہے کہ اس نے 21 ویں لاء کمیشن کے سفارشات کے نفاذ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس نے 21 ویں لاء کمیشن کے سفارشات کو کلی طور پر یا جزوی طور پر مسترد کر دیا ہے تو اسے اس کی وجہ بھی بتانی چاہیے۔ (یو این آئی)

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کل شام لاء کمیشن کے نوٹس پر اپنے اعتراضات درج کرا دیئے، جس نے ملک کی مذہبی تنظیموں اور شہریوں سے نمائندگی کی شکل میں ’یکساں سول کوڈ کے بارے میں خیالات اور نظریات‘ داخل کرنے کی درخواست کی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ’’ یونیفارم سول کوڈ پر لاء کمیشن کے بارے میں ہمارا جواب 5 نکات پر مبنی ہے، جس میں 1۔ ابتدائی ایشوز 2۔ اکیسویں لاء کمیشن پر ہمارا جواب اور رپورٹ 3۔ یکساں سول کوڈ پر ہمارے اعتراضات کے دلائل 4۔ موجودہ سول قوانین کا جائزہ اور 5۔ جوابات کا خلاصہ شامل ہیں۔

جواب کے پہلے حصے میں، بورڈ نے ابتدائی اعتراضات کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس میں کہا گیا کہ لاء کمیشن کا نوٹس بہت مبہم، عمومی اور غیر واضح ہے۔ متعلقہ حصہ میں کہا گیا کمیشن کے سوال میں تجاویز کی شرائط غائب ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ایشو کو پبلک ڈومین میں محض اس لیے ڈالا گیا تاکہ اس پر ریفرنڈم کروایا جا سکے اور کوشش یہ کی گئی کہ عام لوگوں کا ردعمل بھی کمیشن تک مبہم الفاظ میں یعنی 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہی پہنچ سکے۔ متعدد وجوہات کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ باوجود یہ کہ یہ مسئلہ خالصتاً قانونی ہے تاہم سیاست اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے لئے اس کی حیثیت چارہ کی بھی ہے۔

یہ مسئلہ اس لئے بھی مزید اہم ہو جاتا ہے کہ اس پر سابقہ لاء کمیشن نے جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یونیفارم سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ 22ویں لاء کمیشن کو اس پر عوامی رائے لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جب کہ اس کے پاس کوئی بلیو پرنٹ بھی نہیں ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ کمیشن کا ارادہ کیا ہے۔

مسلمانوں کی مذہبی اساس، قرآن مجید، سنت رسول اور فقہ (اسلامی قانون) ہے جس کو بھارت کے دستور کی دفعہ25 اور 26 سے تحفظ حاصل ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن و سنت میں بیان کئے گئے احکام پر عمل کریں۔ اسلام کے پیروکار بھی اپنے آپ کو ان احکام کے پابند سمجھتے ہیں اور یہ تمام امور ناقابل تبدیل شرائط ہیں۔ مسلمانوں کے ذاتی و اجتماعی تعلقات، ان کے خاندانی معاملات و شخصی قوانین بھی، براہ راست قرآن و سنت (اسلامی قوانین) سے ماخوذ ہیں اور یہ پہلو ان کی بنیادی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بھارت کے مسلمان اس شناخت سے دست بردار ہونے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو سکتے نیز اس کی ہمارے ملک کے آئینی دائرے میں پوری گنجائش بھی ہے۔ اگر ہم اقلیتوں اور قبائلی طبقات کو ان کے پرسنل لاء اور رواجی قانون کے تحت زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں تو گویا اپنے ملک کے تنوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور اس سے ملک کی سالمیت، تحفظ، سلامتی اور بھائی چارے کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

جواب کے دوسرے حصے میں، بورڈ نے اس مسئلہ پر 21 ویں لاء کمیشن کو دیئے گئے اپنے تفصیلی جواب کو دہرایا اور اس کو بھی اس دستاویز کے ساتھ منسلک کر دیا۔

جواب کے تیسرے حصے میں ملک کی تکثیری حیثیت، وسیع تنوع اور کثیر ثقافتی حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی مزید براں اس حصہ میں سیکولرازم، حقوق نسواں اور مساوات کے اصول، قومی یکجہتی اور سپریم کورٹ کے مشاہدات سے پیدا شدہ مسائل پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا۔ خلاصہ کے طور پر اس میں کہا گیا؛ ’’ملک کے مختلف طبقات کے ذریعہ متعدد پرسنل لاء اور روایتی قوانین پر عمل در آمد در اصل آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 29 مذہبی و ثقافتی حقوق کے مطابق ہے۔ مختلف طبقات، مذہبی اکائیوں اور قبائل کے مذہبی و ثقافتی اصولوں کے مطابق ایسے قوانین کا ان پر اطلاق ہمارے ملک کی مضبوط جمہوریت اور تنوع کی روشن مثال کے جشن کے طور پر منایا جانا چاہیے“۔

جواب کے چوتھے حصے میں، موجودہ سول قوانین اور اس کی نام نہاد یکسانیت پر بحث کی گئی۔ جواب میں کہا گیا کہ، ’’ہم یہ حقائق اس بات کی نشاندہی کے لیے پیش کر رہے ہیں کہ موجودہ قوانین میں بھی مذہبی اصولوں اور رسوم و رواج اور قبائلی استثنیٰ کی عکاسی جھلکتی ہے جس سے مذہبی و ثقافتی تنوع اور رسوم و رواج کی ناقابل تنسیخ پوزیشن واضح اور متیعن ہو جاتی ہے جس کو اس طرح کے ضابطوں (یونیفارم سول کوڈ) کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ممکنہ یونیفارم سول کوڈ کے دائرہ کار اور نوعیت کا تجزیہ کرنے کا کام بھی موجودہ عائلی قوانین کے تناظر میں ہی کیا جا سکتا ہے— عمومی اور ذاتی دونوں حیثیت سے۔ اس تجزیہ کی دو بنیادیں ہوسکتی ہیں:

‏(a)کیا موجودہ عمومی/یکساں خاندانی قوانین واقعی یکساں ہیں؟

‏(b)کیا موجودہ کوڈیفائیڈ کمیونٹی پر مبنی ذاتی قوانین یکساں ہیں؟

پھر بورڈ نے موجودہ سول قوانین کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ عمومی / یکساں خاندانی قوانین صحیح معنوں میں یکساں نہیں ہیں، یہاں تک کہ موجودہ کوڈیفائیڈ قوانین بھی یکساں نہیں ہیں۔ بھارت میں جسے یونیفارم عائلی قانون کہا جاتا ہے وہ ہرگز بھی یکساں نہیں ہے۔ جیسے Special Marraige Act، جس کو نہ صرف اکثریت کے قوانین مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے بلکہ اس میں روایتی قوانین کے لیے استثنیٰ بھی فراہم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جواب کے آخری حصہ میں بورڈ نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ بظاہر جواب آسان لگتا ہے لیکن یہ پیچیدگیوں اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ ان پیچیدگیوں کا احساس آئین ساز اسمبلی نے 1949 میں اس وقت کیا تھا جب یونیفارم سول کوڈ پر اسمبلی میں بحث ہوئی تھی۔ آئین ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر تفصیلی بحث ہوئی تھی۔ بحث میں مسلمانوں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ پر شدید مخالفت ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر ہمیں بحث کے اختتام پر ڈاکٹر امبیڈکر کی طرف سے دی گئی وضاحت کو یاد رکھنا مناسب ہو گا،” یہ بالکل ممکن ہے کہ مستقبل کی پارلیمنٹ اس پر آغاز کرتے ہوئے یہ انتظام کرے کہ یہ ضابطہ صرف اور صرف ان لوگوں پر لاگو ہوگا جو یہ اعلان کریں کہ وہ اس کے لیے تیار ہیں، تاکہ ابتدائی مرحلے میں ضابطہ کا اطلاق خالصتاً رضاکارانہ ہو“۔

ہمارے ملک کی سب سے اہم دستاویز دستور ہند میں بھی یکسانیت نہیں ہے، تاکہ ملک کے اتحاد کو برقرار رکھا جاسکے۔ مختلف علاقوں، قوموں، برادریوں کے اصول و ضوابط کو آئین نے قبول کیا ہے، محض یکسانیت کے نام پر مروجہ اصول و ضوابط، رواج و رسومات کو کل عدم نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ دوسری طرف ملک کے مسلمہ قوانین و ضوابط میں بھی پورے ملک میں یکسانیت نہیں ہے۔ یکسانیت کا ہوّا کھڑا کر نے والوں سے یہ سوال بھی کیا جانا ضروری ہے کہ کیا محض یکسانیت کے نام پر صدیوں سے سماج میں رائج پرسنل لاز اور ریتی رواج کو اکھاڑ پھینکا جائے گا جب کہ ملک کے مسلمہ قوانین اور نام نہاد یونیفارم قوانین بھی یکسانیت سے عاری ہیں۔

گوا کا سول قانون بھی تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ ملک کے دستور میں بھی مختلف طبقات اور علاقوں کی رعایت کی گئی ہے۔ ملک کا سول قانون (.IPC and Cr.Pc) پورے ملک میں یکساں نہیں ہے۔ ریاستوں نے اس میں سو سے زائد ترمیمات کر رکھی ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ جو کہ ہندوؤں کے عائلی قانون کو منضبط کر نے کے لئے بنایا گیا تھا، تضادات اور تنوع کا مجموعہ ہے- مختلف ذاتوں و طبقات کو کئی معاملات میں استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ بھی اپنے تحت شادی کر نے والوں کو ہندو سکسیشن ایکٹ کی راہ دکھاتا ہے اور رواجی قوانین کو دھندلا کر دیتا ہے۔ مختلف قوانین میں جو تنوع و تضادات ہیں، یہاں ان کی محظ چند مثالوں پر اتفاق کیا گیا۔ اکثریتی زعم کو پرسنل لاز، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق پر یونیفارم سول کوڈ کے نام پر حاوی نہیں کیا جانا چاہیے۔

21 ویں لاء کمیشن کے ذریعہ تیار کردہ مشاورتی رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکومت نے اس پر مکمل خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ کیا اس نے اسے کلی طور پر یا جزوی طور پر قبول کیا ہے؟ نہ ہی حکومت نے یہ بتایا ہے کہ اس نے 21 ویں لاء کمیشن کے سفارشات کے نفاذ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس نے 21 ویں لاء کمیشن کے سفارشات کو کلی طور پر یا جزوی طور پر مسترد کر دیا ہے تو اسے اس کی وجہ بھی بتانی چاہیے۔ (یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.