ETV Bharat / bharat

Border Dispute کرناٹک کے ساتھ تنازع کے درمیان مہاراشٹر اسمبلی میں قراداد منظور

مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی نے منگل کو متفقہ طور پر کرناٹک کے مراٹھی مخالف موقف کی مذمت کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی اور اعلان کیا کہ مہاراشٹر حکومت بیلگاوی، نپانی، کاروار اور بیدر سمیت 865 گاؤں کی ایک ایک انچ زمین کو مہاراشٹر شامل کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ سپریم کورٹ میں قانونی لڑائی لڑے گی۔ Marathi Speaking Karnataka Villages

Maharashtra Karnataka Border Dispute
مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے
author img

By

Published : Dec 27, 2022, 5:39 PM IST

ممبئی: کرناٹک کے ساتھ جاری سرحدی تنازع کے درمیان منگل کو مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ تجویز کے مطابق کرناٹک میں مراٹھی بولنے والے 865 گاؤں کو ریاست میں شامل کرنے کے لیے معاملے کو قانونی طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔ اس دوران مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ ریاستی حکومت 865 گاؤں میں مراٹھی بولنے والوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ مرکزی حکومت کو کرناٹک حکومت سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے پر زور دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرناٹک حکومت کو سرحدی علاقوں میں مراٹھی لوگوں کی حفاظت کی ضمانت دینے کی سمجھ دی جانی چاہئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پیر کو شیوسینا کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے مطالبہ کیا کہ کرناٹک کے مراٹھی بولنے والے علاقوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے۔ Maharashtra Karnataka Border Conflict

Courtesy ANI Twitter
بشکریہ: اے این آئی ٹویٹر

وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے تجویز پیش کی: مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے یہ تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک نے جان بوجھ کر سرحدی تنازع کو بھڑکانے کے لیے اس مسئلہ پر قرارداد پاس کی۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کرناٹک کے 865 مراٹھی بولنے والے گاؤں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ریاستی حکومت کرناٹک کے ان دیہاتوں کی انچ انچ زمین کو شامل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں قانونی طور پر اس معاملے کی پیروی کرے گی۔ قبل ازیں جمعرات کو کرناٹک اسمبلی میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔ اس میں کرناٹک کے مفادات کا تحفظ کرنے اور پڑوسی ریاست کو ایک انچ بھی زمین نہ دینے کا تہیہ کیا گیا تھا۔ یہی نہیں قرارداد میں کہا گیا کہ یہ تنازع مہاراشٹر نے کھڑا کیا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ Maharashtra Assembly Passes Resolution About Border Issue

ادھو ٹھاکرے نے شندے حکومت کو گھیرا: اس سے پہلے پیر کو ادھو ٹھاکرے نے اس معاملے پر ایکناتھ شندے حکومت کو گھیرا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے لیکن انہیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ان کی زمین نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اپنا بیلگام چاہیے جو کہ مراٹھی اکثریتی علاقہ ہے۔ ایسے میں معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کے بعد بھی کرناٹک حکومت بیلگام میں رہنے والے مراٹھوں کو کیوں پریشان کر رہی ہے؟ قانون ساز کونسل میں مطالبہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک کرناٹک۔مہاراشٹر سرحدی تنازع سُپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، بیلگام کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جانا چاہئے۔

معاملہ سپریم کورٹ میں ہے: 18 سال پہلے 2004 میں مہاراشٹر حکومت اس سرحدی تنازع کو سپریم کورٹ لے گئی تھی۔ مہاراشٹر حکومت نے 814 گاؤں اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سنہ 2006 میں سُپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ لسانی بنیادوں پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس سے مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں اس معاملے کو لے کر 30 نومبر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

کرناٹک اور مہاراشٹر کے درمیان کیا تنازع ہے: دراصل آزادی سے پہلے مہاراشٹر کو بمبئی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آج کے کرناٹک کے وجئے پورہ، بیلگاوی، دھارواڑ اور اترا کنڑ پہلے بمبئی ریاست کا حصہ تھے۔ آزادی کے بعد جب ریاستوں کی تنظیم نو جاری تھی، بیلگاوی میونسپلٹی نے اسے مجوزہ مہاراشٹر میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس میں مراٹھی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے بعد 1956 میں جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تنظیم نو کا کام چل رہا تھا مہاراشٹر کے کچھ لیڈروں نے بیلگاوی (پہلے بیلگام)، نیپانی، کاراوار، خاناپور اور نند گڑھ کو مہاراشٹر کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

جب مطالبہ زور پکڑنے لگا تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق جج مہر چند مہاجن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے 1967 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے مہاراشٹر کو 262 گاؤں دینے کا مشورہ دیا جن میں نیپانی، کھانا پور اور نند گڑھ شامل ہیں۔ مہاراشٹر نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ وہ بیلگاوی سمیت 814 گاؤں کا مطالبہ کر رہا تھا۔ مہاراشٹر کا کہنا ہے کہ کرناٹک کے حصے میں شامل گاؤں کو اس میں شامل کیا جائے کیونکہ وہاں مراٹھی بولنے والوں کی بڑی آبادی ہے لیکن کرناٹک لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل اور 1967 کی مہاجن کمیشن کی رپورٹ پر یقین رکھتا ہے۔ وہیں دوسری جانب کرناٹک بیلگاوی کو اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے۔ سوورنا ودھان سودھ بھی وہاں تشکیل دیا گیا ہے، جہاں ہر سال کرناٹک اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔

ممبئی: کرناٹک کے ساتھ جاری سرحدی تنازع کے درمیان منگل کو مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ تجویز کے مطابق کرناٹک میں مراٹھی بولنے والے 865 گاؤں کو ریاست میں شامل کرنے کے لیے معاملے کو قانونی طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔ اس دوران مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ ریاستی حکومت 865 گاؤں میں مراٹھی بولنے والوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ مرکزی حکومت کو کرناٹک حکومت سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے پر زور دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرناٹک حکومت کو سرحدی علاقوں میں مراٹھی لوگوں کی حفاظت کی ضمانت دینے کی سمجھ دی جانی چاہئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پیر کو شیوسینا کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے مطالبہ کیا کہ کرناٹک کے مراٹھی بولنے والے علاقوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے۔ Maharashtra Karnataka Border Conflict

Courtesy ANI Twitter
بشکریہ: اے این آئی ٹویٹر

وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے تجویز پیش کی: مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے یہ تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک نے جان بوجھ کر سرحدی تنازع کو بھڑکانے کے لیے اس مسئلہ پر قرارداد پاس کی۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کرناٹک کے 865 مراٹھی بولنے والے گاؤں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ریاستی حکومت کرناٹک کے ان دیہاتوں کی انچ انچ زمین کو شامل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں قانونی طور پر اس معاملے کی پیروی کرے گی۔ قبل ازیں جمعرات کو کرناٹک اسمبلی میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔ اس میں کرناٹک کے مفادات کا تحفظ کرنے اور پڑوسی ریاست کو ایک انچ بھی زمین نہ دینے کا تہیہ کیا گیا تھا۔ یہی نہیں قرارداد میں کہا گیا کہ یہ تنازع مہاراشٹر نے کھڑا کیا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ Maharashtra Assembly Passes Resolution About Border Issue

ادھو ٹھاکرے نے شندے حکومت کو گھیرا: اس سے پہلے پیر کو ادھو ٹھاکرے نے اس معاملے پر ایکناتھ شندے حکومت کو گھیرا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے لیکن انہیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ان کی زمین نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اپنا بیلگام چاہیے جو کہ مراٹھی اکثریتی علاقہ ہے۔ ایسے میں معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کے بعد بھی کرناٹک حکومت بیلگام میں رہنے والے مراٹھوں کو کیوں پریشان کر رہی ہے؟ قانون ساز کونسل میں مطالبہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک کرناٹک۔مہاراشٹر سرحدی تنازع سُپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، بیلگام کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جانا چاہئے۔

معاملہ سپریم کورٹ میں ہے: 18 سال پہلے 2004 میں مہاراشٹر حکومت اس سرحدی تنازع کو سپریم کورٹ لے گئی تھی۔ مہاراشٹر حکومت نے 814 گاؤں اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سنہ 2006 میں سُپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ لسانی بنیادوں پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس سے مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں اس معاملے کو لے کر 30 نومبر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

کرناٹک اور مہاراشٹر کے درمیان کیا تنازع ہے: دراصل آزادی سے پہلے مہاراشٹر کو بمبئی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آج کے کرناٹک کے وجئے پورہ، بیلگاوی، دھارواڑ اور اترا کنڑ پہلے بمبئی ریاست کا حصہ تھے۔ آزادی کے بعد جب ریاستوں کی تنظیم نو جاری تھی، بیلگاوی میونسپلٹی نے اسے مجوزہ مہاراشٹر میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس میں مراٹھی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے بعد 1956 میں جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تنظیم نو کا کام چل رہا تھا مہاراشٹر کے کچھ لیڈروں نے بیلگاوی (پہلے بیلگام)، نیپانی، کاراوار، خاناپور اور نند گڑھ کو مہاراشٹر کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

جب مطالبہ زور پکڑنے لگا تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق جج مہر چند مہاجن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے 1967 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے مہاراشٹر کو 262 گاؤں دینے کا مشورہ دیا جن میں نیپانی، کھانا پور اور نند گڑھ شامل ہیں۔ مہاراشٹر نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ وہ بیلگاوی سمیت 814 گاؤں کا مطالبہ کر رہا تھا۔ مہاراشٹر کا کہنا ہے کہ کرناٹک کے حصے میں شامل گاؤں کو اس میں شامل کیا جائے کیونکہ وہاں مراٹھی بولنے والوں کی بڑی آبادی ہے لیکن کرناٹک لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل اور 1967 کی مہاجن کمیشن کی رپورٹ پر یقین رکھتا ہے۔ وہیں دوسری جانب کرناٹک بیلگاوی کو اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے۔ سوورنا ودھان سودھ بھی وہاں تشکیل دیا گیا ہے، جہاں ہر سال کرناٹک اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.