نیوز رپورٹس کے مطابق گزشتہ ماہ بھارت کے دیہات میں 44 فیصد کووِڈ متاثرین کا اندراج ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی متاثرین کی تعداد کے حوالے سے بھارت کے دیہات نے شہری علاقوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک معصوم انسان، جس نے اپنے گھر میں آگ لگنے کے بعد کنواں کھودنا شروع کیا، کے مصداق مرکز نے ریاستوں کو مفت مشورے دینا شروع کر دیا ہے۔ ریاستوں کے لئے مرکز کی تازہ گائیڈ لائن یہ ہے کہ اُنہیں دیہات، قبائلی علاقوں اور دور دراز خطوں میں کووِڈ متاثرین کو طبی سروسز فراہم کرنا چاہیے۔
طبی نظام شہری علاقوں میں جہاں مجموعی طبی سہولیات کا دو تہائی حصہ موجود ہے، میں بھی تہس نہس ہوگیا ہے۔ حکومت نے اگر دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو وہ احتیاطی اقدامات کے ذریعے دیہات میں وائرس کو پھیلنے سے روک سکتی تھی۔ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اب حکومت کہتی ہے کہ کمیونٹی میڈیکل آفیسرز اور اے این ایم کو دیہات میں ریپڈ انٹی جین ٹیسٹ کرانے کے لئے تربیت دی جانی چاہیے تاکہ کووِڈ متاثرین کی شناخت کی جاسکے۔
اُترا کھنڈ کے لبرہیری میں ایک ماہ کے دوران کووِڈ کی وجہ سے 30 افراد کی موت واقع ہوگئی ہے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ انتظامیہ ابھی تک دیہات میں اس طرح کے سانحات کی وجوہات کا پتہ لگانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ہمارے دیہات میں پرائمری ہیلتھ کیئر سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں یہ حیران کن ہے کہ مرکز یہ توقع کیسے کرتا ہے کہ اس کی تازہ گائیڈ لائنز دیہات کو وبا سے بچا سکیں گی۔
پنچایتی راج دیوس پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی کورونا وائرس کے خلاف فاتح بن کر اُبھرے گا تو وہ بھارت کے دیہات ہوں گے۔ دیہات کے لوگ اس ضمن میں بھارت اور دُنیا کی رہنمائی کریں گے۔ لیڈروں کی جانب سے کسی پیشگی حکمت عملی کو اختیار کرنے کے بجائے خوشگوار لفظوں سے کھیلنے کے مشغلے کی وجہ سے اب دیہات میں موت کا رقص جاری ہے۔
مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، اُتر پردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں کووِڈ سے متعلق موجودہ صورتحال واقعی خطرناک ہے۔ مرکز نے ایک ماہ قبل خود ہی یہ اعلان کیا ہے کہ ملک میں تمام سب سینٹروں، پرائمری ہیلتھ سینٹروں اور کمیونٹی ہیلتھ سینٹروں پر سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکز اب کہہ رہا ہے کہ وہ ان مراکز کی مدد سے کووِڈ کی کمر توڑنا چاہتا ہے۔
ہر ہیلتھ سینٹر کے دائرے میں تین یا چار گاوں آتے ہیں۔ اسی طرح ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر کے دائرے میں 27 دیہات آتے ہیں اور ایک کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے دائرہ کار میں 127 گاؤں آتے ہیں۔ ان سینٹروں میں 80,600 خالی اسامیاں ہیں، جن کی وجہ سے یہ مفلوج ہیں۔ کیا کوئی طبی مرکز جہاں 76 فیصد سپیشل میڈیکل پوسٹس خالی ہوں، متعلقہ دیہات کو کووِڈ سے بچا پائے گا؟ جبکہ شہروں میں طبی عملہ کووِڈ متاثرین کو اپنی خدمات فراہم کرتے ہوئے نڈھال ہوچکا ہے، کیا ایسی صورتحال میں دیہی ہیلتھ سینٹرز کووِڈ متاثرین کے دباو کو سہہ پائیں گے؟
مزید پڑھیں:
کورونا کا قہر: بھارت میں ریکارڈ اموات، کیسز میں کمی
اس بحرانی صورتحال میں بھی بعض دیہات احتیاطی اقدامات پر سختی سے عمل کرتے ہوئے وبا کو ان کے حدوود میں داخل ہوجانے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ صرف اسی طرح کی جانکاری دیہات کو کووِڈ کی تباہ کاریوں سے بچا سکتی ہے۔