نئی دہلی: مبینہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں گرفتار عرفان خواجہ خان کی آج دیر شام بالآخیر جیل سے رہائی عمل میں آگئی اور وہ اس مقدمہ کا پہلا ملزم ہے جس کی جیل سے رہائی عمل میں آئی ہے۔ یہ اطلاع آج یہاں جاری جمعیۃ کی پریس ریلیز میں دی گئی ہے۔ ریلیز کے مطابق گذشتہ ماہ کی 22/ تاریخ کو سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کی تھی لیکن ضمانت کے دستاویزات کی تصدیق کرنے میں اتر پردیش اے ٹی ایس نے چالیس دن کا وقت لگا دیا حالانکہ اس دوران سیشن عدالت سے متعدد مرتبہ درخواست کی گئی کہ اے ٹی ایس کو جلداز جلد کاغذی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا جائے، سیشن عدالت کی جانب سے ہدایت ملنے کے باوجود اے ٹی ایس نے نہایت سست رفتاری سے کاغذی کارروائی انجام دی اسی لیئے سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود ملزم کو جیل سے رہا ہونے میں چالیس دن کا وقت لگ گیا۔ گذشتہ چالیس دنوں کے دوران ملزم کے اہل خانہ نے بیڑ سے لکھنؤ کا متعدد مرتبہ سفر کیا تاکہ جیل سے رہائی کی کارروائی جلد از جلد انجام دی جاسکے۔ جیل سے رہائی کے وقت عرفان خان کے سسر اور اس کا بھائی ڈسٹرکٹ جیل پر موجود تھے اور نہایت جذباتی انداز میں بغل گیر ہوکر عرفان کا استقبال کیا۔
اس ضمن میں ملزم کو قانونی امدا د فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسیوں کو بتایا کہ اے ٹی ایس کی جانب سے ضمانت کے دستاویزات کی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کے بعد ایڈوکیٹ فرقان احمد اور ایڈوکیٹ سیف نے کاغذی کارروائی مکمل کی، کل عدالت نے ملزم عرفان خواجہ خان کو جیل سے رہا کیئے جانے کا پروانہ جاری کیا جس کے بعد ملزم کی جیل سے رہائی عمل میں آئی۔ ملزم عرفان خان کو لکھنؤ کے مضافات موہن لال گنج میں قائم ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیا تھا۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری ہوتے ہی ملزم کے اہل خانہ کی جانب سے ضمانت کے لیئے درکار تمام کاغذات مکمل کرلیئے تھے لیکن اے ٹی ایس والوں نے کاغذات کی تصدیق میں مبینہ ٹال مٹول کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ملزم کی جیل سے رہائی میں تاخیر ہوئی۔ کاغذات کی تصدیق کے لیئے اے ٹی ایس پولس کا ایک کانسٹبل لکھنؤ سے مہاراشٹر کے شہر بیڑ گیااوراس نے ذاتی طور پر تمام کاغذات کی تصدیق کی اور پھر اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
ملزم عرفان خان نے جیل میں تقریبا 23/ ماہ گذارے۔سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس انردھ بوس اور جسٹس سدھانشو دھولیہ نے ملزم عرفان خان کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کے کا حکم جاری کیا تھا، ملزم کے دفاع میں سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے بحث کی تھی جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ فرقان پٹھان و دیگر نے کی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عرفان خان کو ضمانت ملنے کے بعد ملزم ڈاکٹر فراز شاہ نے بھی لکھنؤ ہائی کورٹ میں ضمانت عرضداشت داخل کی تھی جسے دو رکنی بینچ کے جسٹس عطاالرحمن مسعودی اور جسٹس اوم پرکاش شکلا نے عرفان خان کے ضمانت پر رہا کیئے جانے کے آرڈر کو بنیاد بناکر ڈاکٹر فراز شاہ کی بھی ضمانت منظور کرلی تھی، ابتک اس معاملے میں انہیں دو ملزمین کی ضمانتیں منظور ہوئی ہیں جبکہ مولانا کلیم صدیقی کی ضمانت عرضداشت لکھنؤ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال ا تر پردیش انسداد دہشت گرد دستہ اے ٹی ایس نے عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی، مولاکلیم صدیقی سمیت کل 17ملزمین کو جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پیسوں کا لالچ دے کر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کراکے انہیں مسلمان بناتے تھے اور پھر ان کی شادیاں بھی کراتے تھے۔ پولس نے ممنو عہ تنظیم داعش سے تعلق اور غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام عائد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Conversion Case سپریم کورٹ نے عرفان خواجہ خان کی ضمانت منظور کی
یو این آئی