دھنی رام جو کچھ برس قبل روڈ حادثے میں پیر سے معذور ہوگئے تھے، جس کی بناء پر ان کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ اس مشکل گھڑی میں دھنی رام کے اہل خانہ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ایسے میں مجبوراً انہیں بھیک مانگنے کے راستے کو اپنانا پڑا۔ دھنی رام بتاتے ہیں کہ مندر کے باہر پورا دن بھیک مانگتے تھے اور وہیں روڈ پر سوجاتے تھے، لیکن جب شرد پٹیل کی نجی تنظیم کے ذریعہ رین بسیرا میں آئے، اس وقت سے بھیک مانگنا ترک کردیا اور پھر اسی کام سے لگ گئے۔ اب فٹ پاتھ پر سلائی مشین لیکر بیٹھتے ہیں۔ دن بھر میں 60 سے 70 روپیہ کی کمائی ہوجاتی ہے۔
ایسے ہی دیپو گپتا کی کہانی جنہوں نے گزشتہ کئی برس سے بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنالئے تھے۔ دیپو بتاتے ہیں کہ والد نے پوری جائیداد بیوی کے نام کردی تھی، بیوی چھوڑ کر چلی گئی اسی وقت سے ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوگیا۔ اہل خانہ نے بھی ساتھ چھوڑدیا اور بھیک مانگنے لگے لیکن شرد پٹیل اور ان کی ٹیم کی کوششوں نے زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی برپا کردی۔ اب نہ صرف ہمارے سر پر رہنے کے لیے چھت ہے بلکہ روزگار بھی اور عزت نفس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
دیپو بتاتے ہیں کہ اب اپنے ماضی میں کبھی نہیں جانا چاہیں گے بھکاریوں کی زندگی جانور سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ اسی طرح اس رین بسیرا میں درجنوں بھکاری رہائش پذیر ہیں جو ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے حیرت انگیز تبدیلی لارہے ہیں۔
اتر پردیش میں 1972 ایکٹ کے تحت بھیک مانگنا جرم ہے اس کے تحت گزشتہ حکومتوں نے پوری ریاست میں بھکاریوں کو راہ راست پر لانے کے لیے تقریباً 7 بھکاری گھر تعمیر کیے تھے، لکھنؤ میں بھی ایک بھکاری گھر ہے لیکن یہاں پر بھکاری کیوں نہیں آتے اس کا جائزہ لینے ای ٹی وی بھارت نے اس گھر کا دورہ کیا جہاں پر پتہ چلا کہ 2009 میں آخری بار اس گھر سے ایک بھکاری چھوڑا گیا تھا اس کے بعد یہاں کوئی بھکاری نہیں آیا اب یہ گھر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔
شرد پٹیل بتاتے ہیں کہ بھیک مانگنا پوری دنیا میں اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے لیکن اس کو سزا دے کر نہیں کم کیا جاسکتا بلکہ نرم رویہ سے ان بھکاریوں کو کام کرنے کی جانب مائل کرنے سے بآسانی اسے کم کیا جاسکتا ہے اب تک میری کوشش سے تقریباً 300 بھکاری کام کرنے لگے ہیں اور بھیک مانگنا ترک کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں:میرٹھ: مذہبی تہواروں میں گنگا جمنی تہذیب کی جھلک
شرد پٹیل بتاتے ہیں کہ کووڈ نے ان لوگوں کی تجارت پر بھی سخت اثر ڈالا ہے جو کام کرتے تھے وہ بند ہوچکا۔ بچی ہوئی رقم اب تک کھائے اب ان کو دوبارہ کام شروع کروانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن بھکاریوں کو ہم لوگ لاتے ہیں۔ کوشش یہی رہتی ہے اسی ماہ میں ان کے گھر والوں سے ملادیں۔ ان کو کام شروع کرادیں، لیکن جو لوگ اپنے گھر نہیں جانا چاہتے ہیں وہ یہیں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔