ETV Bharat / bharat

یوم عاشورہ کی تاریخی حیثیت اور حقیقت پر مولانا عبدالخالق ندوی سے خصوصی بات چیت

اسلامی تاریخ میں ماہ محرم اور یوم عاشورہ کی تاریخی حیثیت و حقیقت سے متعلق جماعت اسلامی ہند رامپور یونٹ کے امیر مولانا عبدالخالق ندوی نے تفصیلی گفتگو کی۔

مولانا عبدالخالق ندوی سے خصوصی بات چیت
مولانا عبدالخالق ندوی سے خصوصی بات چیت
author img

By

Published : Aug 20, 2021, 5:59 PM IST

مولانا عبدالخالق ندوی نے بتایا کہ 'نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اہل قریش بھی اس دن کے روزے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے پتا چلتا ہے کہ یوم عاشورہ کی ملت ابراہیمی میں اہمیت تھی کیونکہ قریش کے لوگ ملت ابراہیمی کے مطابق عمل کرتے تھے۔

مولانا عبدالخالق ندوی سے خصوصی بات چیت

مولانا نے کہا کہ پہلے یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن جب سنہ 2 ہجری میں رمضان المبارک کے روزں کی فرضیت کا حکم آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کی فرضیت کو عام مسلمانوں کے لئے ختم کر دیا لیکن خود اس کا اہتمام ضرور کرتے تھے، لیکن جب نبی کریم ﷺ یہ بات پتا چلی کہ یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے اور اس روزہ کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ 'اس دن یعنی 10 محرم کو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی تھی تو اس کے شکرانے میں ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں'۔ جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم ان سے زیادہ اس شکرکے مستحق ہیں اس لئے ہم اس دن روزہ رکھیں گے اور ایک کے بجائے دو رکھیں گے'۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ 'ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور وہ ہمارے آئیڈیل اور نمونہ ہیں اس لئے ہمیں ان کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا چاہئے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اور خرافات کو دین سے جوڑ لیا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'یوم عاشورہ کے نام پر سبیلیں لگائی جاتی ہیں حلوے اور حلیم بنائے جاتے ہیں جس کا حضرت حسینؓ اور ان کے نانا حضرت محمدﷺ کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: واقعۂ کربلا اور یومِ عاشورا

مولانا نے کہا کہ میں تمام بھارتی مسلمانوں کو پیغام دیتا ہوں کہ نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق اس دن پر مسلمان روزے کا اہتمام کریں اور حضرت حسینؓ جس محاذ پر گئے تھے، وہ امت کے اندر انتشار، اختلاف اور فتنہ پروروں کے فتنے کو دبانے کے لئے اس عظیم محاذ پر نکلے تھے'۔

مولانا عبدالخالق ندوی نے بتایا کہ 'نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اہل قریش بھی اس دن کے روزے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے پتا چلتا ہے کہ یوم عاشورہ کی ملت ابراہیمی میں اہمیت تھی کیونکہ قریش کے لوگ ملت ابراہیمی کے مطابق عمل کرتے تھے۔

مولانا عبدالخالق ندوی سے خصوصی بات چیت

مولانا نے کہا کہ پہلے یوم عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن جب سنہ 2 ہجری میں رمضان المبارک کے روزں کی فرضیت کا حکم آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کی فرضیت کو عام مسلمانوں کے لئے ختم کر دیا لیکن خود اس کا اہتمام ضرور کرتے تھے، لیکن جب نبی کریم ﷺ یہ بات پتا چلی کہ یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے اور اس روزہ کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ 'اس دن یعنی 10 محرم کو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی تھی تو اس کے شکرانے میں ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں'۔ جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم ان سے زیادہ اس شکرکے مستحق ہیں اس لئے ہم اس دن روزہ رکھیں گے اور ایک کے بجائے دو رکھیں گے'۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا کہ 'ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور وہ ہمارے آئیڈیل اور نمونہ ہیں اس لئے ہمیں ان کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا چاہئے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اور خرافات کو دین سے جوڑ لیا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'یوم عاشورہ کے نام پر سبیلیں لگائی جاتی ہیں حلوے اور حلیم بنائے جاتے ہیں جس کا حضرت حسینؓ اور ان کے نانا حضرت محمدﷺ کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: واقعۂ کربلا اور یومِ عاشورا

مولانا نے کہا کہ میں تمام بھارتی مسلمانوں کو پیغام دیتا ہوں کہ نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق اس دن پر مسلمان روزے کا اہتمام کریں اور حضرت حسینؓ جس محاذ پر گئے تھے، وہ امت کے اندر انتشار، اختلاف اور فتنہ پروروں کے فتنے کو دبانے کے لئے اس عظیم محاذ پر نکلے تھے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.