1۔ کورونا وائرس کے 99 فیصد مریض خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ان کی آکسیجن سطح کی نگرانی کی جائے اور یہ 93 سے نیچے نہ ہو۔ پیرا سیٹامال، ڈولو اور کروسین، بخار، جسمانی درد کے لیے بہتر ہے اور انہیں گھر میں 'قرنطین' کردیا جائے اور کوئی بھی ان کے قریب نہ جائے۔
99 فیصد افراد کو پلازما، ریمیڈیسور، آئیورمیٹسن، ہائیڈراکسی کلورو کوین، اینٹی بائیوٹکس یا آسٹیریائیڈ، خون پتلا کرنے والی دوا یا ٹوسیلی زوماب دینے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ اگر آکسیجن کی سطح 93 ہے تو اسپتال میں داخل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
2۔ کورونا وائرس ایک ایسی بیماری ہے جو ایک ہی وقت میں کئی افراد کو بیمار کردیتی ہے۔ اس بیماری سے صرف ایک فیصد افراد بہت بری طرح بیمار ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام طبی ذرائع (اسپتالوں کے بستر، آکسیجن سلنڈر وغیرہ) کو ان ایک فیصد شدید بیمار افراد کے لیے بچا کر رکھنا چاہئے نہ کہ 99 فیصد ان معمولی بیمار افراد کے لیے جو دولت مند، تعلقات اور اثر و رسوخ والے ہیں۔
3۔ ایک فیصد شدید بیمار افراد کے لیے جو دوائیں موثر ہیں، ان میں خون پتلا کرنے والی، ٹوسیلی زوماب (صرف 4 فیصد) انہیں دینا چاہئے جب ضروری ہو۔ ریمیڈیسور سے بہت ہی معمولی فائدہ ہے (جان بچانے میں بالکل بھی کار آمد نہیں) اگر موجود ہو تو دیں اگر موجود نہ ہو تو مریض کو اس کے لیے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ان دونوں دواؤں ( ٹوسیلی زوماب ، ریمیڈیسور) کو کورونا وائرس سے جان بچانے والی دوا کہنا غلط ہوگا۔
4۔ پلازما کے بارے میں کافی تفصیل سے مطالعہ کیا گیا اور اس سے بھی کوئی زیادہ فائدہ نہیں پایا گیا۔ 11 ہزار افراد کو پلازما دیا گیا اور 11 ہزار افراد کو نہیں دیا گیا جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ پلازما کو نہیں دیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے وسائل استعمال ہوجاتے ہیں لیکن نتیجہ نہیں نکلتا۔
5۔ ہائیڈراکسی کلورو کوین / آئیور میکٹن کے بارے میں دنیا کی کئی بڑی طبی کمپنیوں نے پایا ہے کہ انہیں دینے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ انہیں نہیں دیا جانا چاہئے حالانکہ یہ سستے ہیں اور اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا ہے۔
6۔ آکسیجن کی قلت: برطانیہ کے کئی اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت کے سبب ایک مختصر وقت کے لیے اسپتالوں نے مریضوں کو شریک کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ہمیں صرف ان افراد کو آکسیجن دینے کی ضرورت ہے جن کی آکسیجن کی سطح 93 یا 94 ہو۔ عام طور پر زیادہ سے زیادہ آکسیجن دینے کا رجحان ہے اس سے بچنا چاہئے۔
7۔ لندن میں ویکسین سے پہلے تمام آئی سی یو بھرے ہوئے تھے، تمام تھیٹرس، کارڈک آئی سی یو وغیرہ مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ جب لندن میں جگہ ختم ہوگئی تو دور دراز علاقوں جیسے اسکاٹ لینڈ اور برسٹال میں مریضوں کو ہیلی کاپٹرس کے ذریعہ بھیجا جارہا تھا۔ ویکسین دینے کے بعد ہمارے پاس شائد ہی کوئی مریض ہے جو آئی سی یو میں ہے یا کوئی نیا مریض ہے جو آئی سی یو میں داخل کیا گیا ہو۔ اس کی ایک وجہ مکمل لاک ڈاؤن بھی ہوسکتی ہے۔
8۔ وسائل کا صحیح استعمال: برطانیہ میں ہر مریض جسے اسپتال میں بستر کی ضرورت تھی اسے بستر دیا گیا اور جسے آئی سی یو کی ضرورت تھی اسے آئی سی یو دیا گیا۔ ایسا اسی لیے ممکن ہوا کیونکہ اسپتال کی جانب سے مریضوں کی زمرہ بندی کرتے ہوئے سخت قواعد لاگو کیے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 99 فیصد کورونا مریض جنہیں آکسیجن کی ضرورت نہیں تھی انہیں اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ ایسا بھارت میں بھی سختی سے کیا جانا چاہئے۔
9۔ اگر کوئی ایک مرتبہ کورونا سے مثبت پایا جاتا ہے تو اسے دوسری مرتبہ کورونا ٹسٹ نہیں کروانا چاہئے اس سے فضول میں کورونا کٹ ضائع ہوگی۔ ایک مرتبہ کوئی مریض دو ہفتوں کے لیے گھر میں قرنطینہ ہوجاتا ہے تو دو ہفتوں بعد ایسا تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ دو ہفتوں بعد منفی ہوجائے گا۔
ڈاکٹر نشت سود
ماہر انستھسیا / کریٹیکل کیئر / این ایچ ایس، لندن