ETV Bharat / bharat

لکھنؤ: چلنے پھرنے اور بولنے والے مجسمہ سے ای ٹی وی بھارت کی خاص بات چیت

author img

By

Published : Oct 17, 2021, 1:46 PM IST

بھارت میں انسانوں کے بےشمار مجسمے یا اسٹیچو پارک، چوراہے یا سیاحتی مقامات پر دیکھنے کو مل جائیں گے، جن کی تعمیر کے نام پر گروڑوں روپیے خرچ کئے گئے۔ ان کی شکل و صورت اگرچہ انسانوں جیسی ہوتی ہے لیکن یہ بے جان ہوتے ہیں۔

ETV Bharat's exclusive interview with the walking and talking statue
چلنے پھرنے اور بولنے والا مجسمہ سے ای ٹی وی بھارت کی خاس بات چیت

آج ہم آپ کو ایسے مجسمہ کے بارے میں بتائیں گے جو نہ صرف انسانی شکل و صورت کے ہوتے ہیں بلکہ ان میں بولنے سننے اور چھونے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ اسٹیچو چل پھر بھی لیتے ہیں۔

ویڈیو

لکھنؤ کے تاریخی عمارتوں کے قریب جہاں سیاحوں کا بے شمار ہجوم ہوتا ہے وہیں پر اب بولنے اور سننے اور چھونے والے اسٹیچو بھی نظر آ رہے ہیں، جسے سیاح دیکھ کر بے حد متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں۔ ان سے مضحکہ خیز دلچسپ حرکات و سکنات بھی صادر ہو رہے ہیں جو مزید دلچسپ بنا رہے ہیں۔

مجسمہ یا اسٹیچو بننا کتنا چیلنجنگ اور دلچسپ ہوتا ہے۔ اس فن کو کیسے سیکھا جاتا ہے اور عوام کا کیا رد عمل ہوتا ہے اور جو فنکار اس فن سے وابستہ ہیں، وہ اپنے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کے لیے لکھنؤ کے اسٹیچو بوائے اروند سنگھ سے ای ٹی وی بھارت نے جاننے کی کو شش کی۔

اسٹیچو بوائے ونیے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی روایت عام ہے اور وہاں کی حکومت میں بھی اس نوعیت کے فنون لطیفہ پر توجہ دیتی ہیں جس کے ذریعے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بھارتی حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ مزید برآں کہ پولیس بہت پریشان کرتی ہے اور شہر کے معروف مقامات پر کھڑے ہونے کے لیے اجازت نہیں دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ ایسے فنون لطیفہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ لکھنؤ یا دیگر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں:Sir Syed Day: سرسید معمار اور مصلحِ قوم تھے

وہ بتاتے ہیں کہ کورونا کے دوران نوکری چھوٹ گئی، اسی دوران ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اسٹیچو بنا جائے۔ اس سلسلے میں غور و فکر کیا ،تلاش و جستجو کے بعد یوٹیوب پر ویڈیوز ملی اور گھر میں مسلسل پریکٹس کرنا شروع کر دیا، جس کے بعد کانپور کے متعدد مشہور مقامات پر مجسمہ بنکر کھڑا ہونے لگا لیکن وہاں کی پولیس انتظامیہ نے بار بار پریشان کیا۔ اب لکھنؤ کے سیاحتی علاقوں میں روزانہ پابندی کے ساتھ کھڑے ہوتا ہوں، جہاں پر عوام کا مثبت اور منفی دونوں طرح کا رویہ سامنے آتا ہے، بعض افراد تعریف کرتے ہیں اور بعض طنز کر کے چلے جاتے ہیں۔

جو پیسے دینے کے خواہشمند ہوتے ہیں ان کے لیے کلکشن باکس رکھا ہے جن کو کچھ دینا ہے وہ اس میں ڈال سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں اسٹیچو فنکار کے مستقبل پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں سوشل میڈیا اور دیگر سماجی رابطہ سائٹ مسرت امیز ردعمل سامنے آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس حوالے سے کوئی بھی سیکھنا چاہتا ہے تو وہ یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ سکتا ہے یا کسی بھی اسٹیچو بوائے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں بلکہ بچے بوڑھے نوجوان خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

آج ہم آپ کو ایسے مجسمہ کے بارے میں بتائیں گے جو نہ صرف انسانی شکل و صورت کے ہوتے ہیں بلکہ ان میں بولنے سننے اور چھونے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ اسٹیچو چل پھر بھی لیتے ہیں۔

ویڈیو

لکھنؤ کے تاریخی عمارتوں کے قریب جہاں سیاحوں کا بے شمار ہجوم ہوتا ہے وہیں پر اب بولنے اور سننے اور چھونے والے اسٹیچو بھی نظر آ رہے ہیں، جسے سیاح دیکھ کر بے حد متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں۔ ان سے مضحکہ خیز دلچسپ حرکات و سکنات بھی صادر ہو رہے ہیں جو مزید دلچسپ بنا رہے ہیں۔

مجسمہ یا اسٹیچو بننا کتنا چیلنجنگ اور دلچسپ ہوتا ہے۔ اس فن کو کیسے سیکھا جاتا ہے اور عوام کا کیا رد عمل ہوتا ہے اور جو فنکار اس فن سے وابستہ ہیں، وہ اپنے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ان تمام سوالوں کا جواب جاننے کے لیے لکھنؤ کے اسٹیچو بوائے اروند سنگھ سے ای ٹی وی بھارت نے جاننے کی کو شش کی۔

اسٹیچو بوائے ونیے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی روایت عام ہے اور وہاں کی حکومت میں بھی اس نوعیت کے فنون لطیفہ پر توجہ دیتی ہیں جس کے ذریعے سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بھارتی حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ مزید برآں کہ پولیس بہت پریشان کرتی ہے اور شہر کے معروف مقامات پر کھڑے ہونے کے لیے اجازت نہیں دیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ ایسے فنون لطیفہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ لکھنؤ یا دیگر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں:Sir Syed Day: سرسید معمار اور مصلحِ قوم تھے

وہ بتاتے ہیں کہ کورونا کے دوران نوکری چھوٹ گئی، اسی دوران ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اسٹیچو بنا جائے۔ اس سلسلے میں غور و فکر کیا ،تلاش و جستجو کے بعد یوٹیوب پر ویڈیوز ملی اور گھر میں مسلسل پریکٹس کرنا شروع کر دیا، جس کے بعد کانپور کے متعدد مشہور مقامات پر مجسمہ بنکر کھڑا ہونے لگا لیکن وہاں کی پولیس انتظامیہ نے بار بار پریشان کیا۔ اب لکھنؤ کے سیاحتی علاقوں میں روزانہ پابندی کے ساتھ کھڑے ہوتا ہوں، جہاں پر عوام کا مثبت اور منفی دونوں طرح کا رویہ سامنے آتا ہے، بعض افراد تعریف کرتے ہیں اور بعض طنز کر کے چلے جاتے ہیں۔

جو پیسے دینے کے خواہشمند ہوتے ہیں ان کے لیے کلکشن باکس رکھا ہے جن کو کچھ دینا ہے وہ اس میں ڈال سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں اسٹیچو فنکار کے مستقبل پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں سوشل میڈیا اور دیگر سماجی رابطہ سائٹ مسرت امیز ردعمل سامنے آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس حوالے سے کوئی بھی سیکھنا چاہتا ہے تو وہ یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ سکتا ہے یا کسی بھی اسٹیچو بوائے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں بلکہ بچے بوڑھے نوجوان خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.