میرٹھ: ریاست اترپردیش کے ضلع میرٹھ کے ٹی پی نگر تھانا علاقے کے تحت ملیانہ ہولی چوک میں ہوئے 1987 کے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لکھویندر سود نے گزشتہ ہفتے کے روز کورٹ نمبر 6میں 39 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ 23 مئی 1987 کو میرٹھ کے ملیانہ ہولی چوک پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جس کے مدعی یعقوب علی ولد نذیر نے 93 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ اس تشدد میں تقریباً 70 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔
میرٹھ کے ملیانہ فسادات میں مقامی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے خلاف یعقوب علی نے مقامی تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ کس طرح سے فسادات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس میں تقریباً 70 سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔ اس کیس کو کرائم نمبر 136 سال 1987 میں درج کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں کیس کی سماعت کے دوران تقریباً 40 لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور تقریباً 39 لوگ سماعت میں موجود تھے۔ جب کہ باقی لوگوں کا کوئی سراغ نہیں ہے۔
اس کیس میں مدعی سمیت 10 گواہوں نے عدالت میں اپنے بیانات درج کرائے۔ اس کے باوجود وہ ملزمان پر جرم ثابت کرنے میں ناکامیاب رہے۔ اس کے بعد عدالت نے گواہوں کی گواہی اور فائل پر دستیاب شواہد کی بنیاد پر 39 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے سبھی کو بری کرنے کا حکم دیا۔ بتادیں کہ 22 مئی 1987 کو میرٹھ کے ہاشم پورہ قتل عام کے بعد 23 مئی کو میرٹھ کے ہی ملیانہ میں بھی 70 سے زائد بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ہاشم پورہ معاملے میں عدالتی فیصلے میں جہاں متاثرین کو انصاف ملا وہیں میرٹھ کے ملیانہ قتل عام معاملے میں گزشتہ ہفتے تمام ملزمان کو بری کیے جانے سے متاثرین میں مایوسی دیکھی جا رہی ہے۔ ملیانہ فسادات معاملے میں جہاں عدالت نے فساد متاثرین اور عینی شاہدین کی گواہی کو ناکافی بتاتے ہوئے ملیانہ فسادات کے تمام ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا ہے وہیں اس معاملے میں اب وکیل اور مقامی لوگ اس معاملے کو ہائی کورٹ میں لے جانے کی بات کہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے عدالت کی نظر میں ہم اپنا موقف صحیح سے نہ رکھ سکے ہوں لیکن ہم اب ہائی کورٹ میں پوری مضبوطی کے ساتھ پیروی کریں گے تاکہ ملیانا کے بے گناہوں کو انصاف مل سکے۔
مزید پڑھیں:۔ Miliana Massacre Case ملیانہ قتل عام کیس میں 40 ملزمان بری
واضح رہے کہ 23 مئی 1987 کو میرٹھ کے ملیانا میں ہوئے خون ریزی میں 70 سے زیادہ اموات، 36 سال کا وقفہ اور آٹھ سوں سے زیادہ گواہوں کے باوجود بھی فساد کے ملزمان کو رہا کیے جانے سے فساد متاثرین کو مایوسی ہوئی ہے۔ ایسے میں اب عدالتی فیصلے کے بعد تمام متاثرین ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر نے اور انصاف کی امید لگا رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ملیانا فساد متاثرین کو کب تک انصاف ملتا ہے؟