سابق بھارتی سفارتکار اور مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال گرشنن گاندھی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ملک کے سیکولر تانے بانے، اتنے برسوں میں ہوئی بھارت کی ترقی اور کن شعبوں میں بھارت کو زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے جیسے مختلف موضوع پر خوصوصی بات چیت کی۔
وہ صدر جمہوریہ کے سیکریٹری اور جنوبی افریقہ اور سری لنکا میں ہائی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں عوامی انتظامیہ، سفارتکاری اور آئینی ذمہ داری کے استعمال کا تجربہ ہے۔
ای ٹی وی بھارت:کیا بھارت ایک قوم کی حیثیت سے ترقی کر رہا ہے، جیسا کہ ہمارے مجاہد آزادی نے تصور کیا تھا؟
گوپال کرشن گاندھی: ہم کئی معنوں میں ایک ملک کی حیثیت سے ترقی کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ بھارت نے پانچ شعبوں میں یقینا ترقی کی ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پہلا 'رضامندی کی عمر' میرا مطلب ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں کم عمر میں ماں بننے والی عورتوں کی موت کی شرح سے لے کر نوزائیدہ بچوں کی اموات کے معاملات میں کمی نظر آئی ہے۔
دوسرا، بھارت میں پولیو کے حوالے سے وسیع پیمانے پر بیداری پروگرام شروع کرنے سے اور پرائمری ہیلتھ کئیر (پی ایچ سی) کی سہولیات میں بہتری کی وجہ سے بھارت میں پیدائش کے وقت زندگی بچنے کی اوسط میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تاہم یہ پی ایچ سی اب بھی کافی حد تک ناکافی اور ناکارہ ہیں۔
تیسرا، بھارت کے شہری علاقوں میں چھوا چھوت کا عمل نظر نہیں آتا ہے۔ ہمارے قصبوں اور شہروں میں امتیازی سلوک برداشت کرنے والے طبقوں میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ حالانکہ دیہی ہندوستان میں پسماندہ طبقات کے ساتھ رویہ ابھی بھی تشویشناک ہے۔
چوتھا، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نے اب ہندوستان میں عوام کی سیاسی شراکت کو ایک جمہوری معمول بنادیا ہے۔ انتظامیہ، ٹیکنالوجی اور عوام کے تعاون کے مابین زبردست ہم آہنگی سے الیکشن کمیشن اچھا کام کر رہی ہے۔
پانچواں، پورے بھارت میں سڑک، ریل اور ہوائی سفر میں یقینی طور پر بہتری آئی ہے، جس سے اب سفر کرنا کافی آسان ہوگیا۔ آزادی سے قبل یہ سب سوچنا ناممکن تھا۔
ہاں میں جانتا ہوں کہ بھارت کو ابھی بھی کئی شعبوں میں ترقی کرنی باقی ہے اور میرے پاس اس کے لیے پانچ وجوہات ہیں۔
پہلا ہمارا آئین مرد اور خاتون کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ حالانکہ ابھی بھی خواتین سب سے زیادہ تشدد خاص طور سے گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ اتنا ہی نہیں استحصال، بچوں کا جنسی استحصال اور چائلڈ ٹریفیکنگ میں کوئی کمی نظر نہیں آئی ہے۔
دوسرا، ہمارا ملک خوراک کی پیداوار میں ترقی کر رہا ہے، لیکن ابھی بھی بڑھتی عمر کے ساتھ بچوں میں غذائیت کی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اس وجہ سے بچوں میں جسمانی بیماریاں اور ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ صرف دیہی علاقوں کا حال نہیں ہے بلکہ شہروں کے کچی آبادی میں رہنے والے بچے بھی اس کا شکار ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے حالات کا گواہ ہم تب بن رہے ہیں جب خود ہمارے ملک اناج اور دودھ کو کثیر تعداد میں پیدا کر رہا ہے۔
تیسرا، دلتوں کے خلاف استحصال اور تشدد کا سلسلہ بدستور جاری ہے، قبائلی لوگ بھی اس کا شکار ہیں۔ جب سماجی کارکن بیزواڑا ولسن کے ذریعہ بھارت میں مہتر( میلا ڈھونے والے) کی حالات کو دنیا کے سامنے رکھا گیا یہ ایک ایسی کہانی تھی جو استحصال اور تشدد سے بھرپور تھی۔ایسی کہانی ہمارے اطراف میں موجود ہوتی ہے لیکن ہم اپنے آنکھوں پر پردہ ڈال چکے ہیں۔
چوتھا، جو میری نظر میں سب سے زیادہ بڑا اور مشکل مسئلہ ہے۔ہمارے انتخابات بغیر فنڈز اور باہوبلوں کے بغیر نہیں ہوتے ہیں۔یہ دو منہ والا شیطان ہمارے جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔
پانچواں، ہمارے ملک کی باہری ساخت کافی مضبوط نظر آتی ہے لیکن سماجی و معاشی لحاظ سے مربوط ہونے سے بہت دور ہیں ہم۔ایک طرف جدید ترین موبائل فون استعمال کرنے والے اور مالی طور پر مضبوط طبقہ جہاں شہری اور میٹروپولیٹن بھارت میں رہتا ہے وہیں دوسری طرف غریب اور پسماندہ طبقہ ان ساری سہولیات سے کافی دور ہے۔ ہماری کاشتکاری برادری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس مسئلے کو عالمی توجہ میں لانے کے لئے پلوگمی سائی ناتھ نے جتنا کام کیا ہے، اتنا کسی نے بھی نہیں کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت:ملک کو آزاد ہوئے سات دہائیوں کا وقت گزر چکا ہے لیکن اس کے بعد بھی اب تک ہمارا شمار ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔بے روزگاری، غربت، غذائیت کی کمی اور صنفی عدم مساوات جیسے معاملے میں ہم پہلے نمبر پر ہیں، کیا یہ ہمارے لیے شرم کی بات نہیں ہے؟
گوپال کرشن گاندھی: ایسا کوئی قوم یا معاشرہ نہیں ہے جو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں نہ آیا ہو۔اس لیے ترقی پذیر ملک ہونا نہ تو غلط ہے اور نہ ہی غیر معمولی۔ہمارے پانچ سالہ منصوبے میں ہم ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں گے جو نہ صرف ملک کو امیر بنائے گا بلکہ ایک انصاف پسند بھارت کی تعمیر بھی کرے گا۔مسئلہ ہماری ترقیاتی حکمت علمیوں کے ساتھ ہے۔ جو حالیہ دنوں میں ناہموار، ناجائز اور ماحولیاتی لحاظ سےبڑے پیمانے پر خطرناک اور انتہائی گمراہ کن راستے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اگر عوامی پالیسی اور نجی سرمایہ کاری اس بنیاد پر آگے بڑھتی کہ گاؤں کو صنعتی شہر بنانا، تالاب کو فلک بوس عمارت میں تبدیل کرنا، دیہی غریبوں کی زمین پر عمارت تیار کر پیسہ کمانا، دریاؤں کا مطلب بجلی پیدا کرنا، جنگلات کا مطلب لکڑی اور چٹانوں کا مطلب سیمنٹ ہے تو ایسے میں ہم اپنے وسائل سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور پھر یہ بھارت دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا ایک امیر اور دوسرا غریب۔
ای ٹی وی بھارت: چین، جنوبی کوریا اور سنگاپور کو ہمارے ساتھ ہی آزادی ملی تھی، لیکن وہ بھارت سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔ہم کئی محاذوں پر ان کے ساتھ مقابلہ کرنے سے نااہل کیوں ہیں؟
گوپال کرشن گاندھی: ہمیں آزادی اس لیے نہیں ملی کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔ہم اپنا سوراج چاہتے تھے اور یہ ہمیں مل بھی گیا ۔مہاتما گاندھی آئیرلینڈ اور امریکہ میں چل رہے آزادی کی جدوجہد سے واقف تھے، لیکن انہوں نے بھارتی نیشنل کانگریس کے ذریعہ نئی اور بھارتی سوچ پر راست کو منتخب کیا۔ظاہر ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد پیدا ہوئے حالت نے تمام پاسے کو پلٹ دیا۔اسی طرح سے ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین لکھنے سے پہلے دوسرے ممالک کے جمہوری اقدار اور آئین کا بھی مطالعہ کیا لیکن آخر میں انہوں نے اسے بھارتی اقدارکے مطابق بنایا۔آئین سب کو برابر اور مساوات کے نظر سے دیکھتا ہے۔لہذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم دوسروں کی نقل کرکے یا مقابلہ کرکے اپنے مسائل کو حل کریں یا اپنی قسمت بنائیں۔
ای ٹی وی بھارت: سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران لوگوں کو ذات پات ، مذہب ، خطے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہے ۔ پیسہ ، شراب اور طاقت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہماری انتخابی عمل ہی بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ ہمارا انتخابی نظام ان پر قابو کیوں نہیں پاسکا؟
گوپال کرشن گاندھی: جیسے ہم ہیں ہماری سیاسی پارٹیاں بھی ویسی ہی ہیں۔جیسا الیکٹر ہوتا ہے ویسی ہی شکل ہمارا انتخابی نظام اختیار کرلیتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت:بھارت مضبوط مرکزی اور کمزور ریاستوں کی جانب قدم بڑھا رہا ہے، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟
گوپال کرشن گاندھی: ہم نے کمزور مرکزی اور مضبوط ریاستیں بھی دیکھی ہیں۔یہ ہماری بیماری کی وجہ نہیں ہے۔اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون کمزور ہے اور کون مضبوط ہے،فرق اس سے پڑتا ہے کہ کون زیادہ انصاف کرتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت: بھارت میں امیر اور غریب کی کھائی چوڑی ہوتی جارہی ہے۔بھارت عرب پتیوں کے معاملے پر تیسرے نمبر پر ہے، ساتھ ہی ایک بڑی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے؟ کیا ہمارے آئین کے معمار اس کا اندازہ لگانے سے چونک گئے؟
گوپال کرشن گاندھی: آئین نے ہمیں ناکام نہیں کیا ہے ہم نے آئین کو ناکام بنادیا ہے۔آئین کے معماروں نے ہمارے جمہوری نظام کے لیے کام کیا لیکن ہم اسے برقرار نہیں رکھ پائے۔
ای ٹی وی بھارت:ہندوستان کو واقعتا ایک آزاد قوم رکھنے کے لئے آزادی سے قبل ایک مضبوط عوامی شعبے کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن حکومتیں عوامی شعبے سے سرمایہ کاری واپس لے رہی ہیں۔ ہندوستان میں عوامی شعبے کا مستقبل کیا ہے؟
گوپال کرشن: بالکل ویسا ہی مستقبل ہے جیسا ہماری عوام کا
ای ٹی وی بھارت :کیا ہندوستانی معاشرہ فطری طور پر سیکولر ہے؟ اگر ایسا ہے تو حالیہ دنوں میں اس ہمارے معاشرہ کے دائیں محاذ کی جانب جھکاؤ کی کیا وجوہات ہے؟
گوپال کرشن گاندھی: دائیں اور بائیں دو جگہ نہیں ہیں، لیکن دو سمت ہیں۔یہ بدل سکتی ہیں اور بدلتی ہیں۔لیکن بھارت ایک جگہ ہے کوئی سمت نہیں۔سیاسی ہوائیں اس کی سطح پر آنے والی سمتوں کو بدلتی رہیں گی۔
ای ٹی وی بھارت: کیا کانگریس جیسی 'سینٹرسٹ' پارٹی اور لیفٹ پارٹی کو مستقبل میں ایک متبادل کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں؟
گوپال کرشن گاندھی: اگر کانگریس بائیں بازو کی طرف جھکی رہتی ہے اور بائیں بازو جمہوری بنی رہتی ہیں تو وہ دونوں ہی مضبوط رہ سکتی ہیں ۔اور اگر وہ دونوں مل جل کر کام کریں اور کسی بھی قسم کے انا سے بالاتر ہوکر جمہوری جماعتوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو وہ قابل تقلید ہوں گے۔ برطانیہ نے ہم پر ' پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو' جیسی حکمت عملی نہیں اپنائی بلکہ ہم خود تقسیم ہوئے اور انہوں نے حکمرانی کی
ای ٹی وی بھارت:کیا ملک کے وفاقی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی ہو رہی ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں ملک کی یکجہتی اور سالمیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
گوپال کرشن گاندھی: بھارت کی جنوبی اور شمالی مشرقی خطے کو لازمی طور پر ہمارے آئین کی وفاقی روح کے لیے ایک دیوار کی طرح کھڑا رہنا چاہیے۔ان دونوں خطوں میں علیحدگی پسندانہ عزام پیدا ہوگئے اور دونوں کو لگا کہ ان دونوں کےمطالبات کو جمہوری بھارت میں نہں مانا جائے گا۔آئین نے بھارت کو مرکزی اور ریاستوں کے درمیان ایک صحیح توازن فراہم کیا ہے۔لیکن اب ہمیں جغرافیائی سیاسی ریاستوں کی سوچ سے باہر انا ہوگا۔ آنے والے وقت میں مزید ریاستوں کی تشکیل کا امکان ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان نئی کارٹوگرافی کے بارے میں سوچے ، جو اس کے ماحولیاتی مقامات کا احترام کریں۔ ہندوستان اور اس کی 36 ریاستوں اور مرکزی خطوں کے موجودہ سیاسی نقشہ میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ہمیں اپنی بھلائی کے لئے ہندوستان کا ماحولیاتی نقشہ بنانا ہوگا۔ ڈیزرٹ انڈیا، فاریسٹ انڈیا ، لٹریل انڈیا اور ہمالین انڈیا سب کو شامل کیا جائے گا۔ ان کا استحصال نہیں کیا جانا چاہئے۔ ان کی بے عزتی نہیں کی جائے ۔ انڈمان اور لکشدویپ کو وسائل کے طور پر نہیں بلکہ ایک نازک مسکن کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔
وفاق صرف سیاسی طاقت اور ٹیکس دینے تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ معاشرتی، ثقافتی اور معاشی تنوع کو پہچاننے اور ان کا احترام کرنے کے بارے میں ہے۔ یہ حساسیت کے بارے میں ہے۔
ای ٹی وی بھارت: کیا آج کے دور میں گاندھی جی کے خیالات اور سوچ پر یقین رکھنے والا کوئی ہے؟
گوپال کرشن گاندھی: اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی گاندھی جیسا ہے اور خود گاندھی کو بھی اسے فرق نہیں پڑتا۔فرق صرف اس بات سے پڑتا ہے کہ گاندھی کیا چاہتے تھے۔ہم سب سوراج کی وراثت کے وارث ہیں۔
ای ٹی وی بھارت: آزادی کی جدوجہد کے جذبے کو جاری رکھنے کے لئے نوجوانوں کو آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ایک بہتر اور خوشحال ہندوستان بنانے کے لئے ان کا تعمیری کردار کیا ہونا چاہئے؟
گوپال کرشن گاندھی : میں کون ہوتا ہوں مشورہ دینے والا۔میری نسل نے صرف بولا ہی ہے۔آج کی نوجوان نسل اپنی پرانی نسل کی صلاح و مشورے سن کر تھک چکی ہے۔پرانی نسل نے جو غلطی کرنی تھی وہ کرلی ۔انہیں جو کرنا تھا کرلیا۔ پھر بھی وہ اپنے آپ کو کافی مہان مانتے تھے۔مجھے لگتا ہے کہ آج کی نسل ہمارے لیڈروں سے چاہتی ہے کہ وہ ایماندار رہیں، اپنی غلطیوں کو قبول کرکے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور جن میں طاقت کی بھوک نہ ہو۔
ای ٹی وی بھارت:کانگری کے 60 سال کی حکمرانی کے باوجود ہندو (ہندو میجورِٹاری اینِ ازم) طاقتیں کیوں مضبوط ہوتی رہیں؟
گوپال کرشن گاندھی: وکیل اور سیاسی فلسفی مینکا گروسوامی نے حال ہی میں ہندوستان کو ’’ اقلیتوں کی اکثریت ‘‘ قرار دیا ہے۔ میں اس کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں جانتا۔لیکن ناؤروجی، بیسنت، تلک، گوکھلے، گاندھی، پٹیل، آزاد، نہرو، پیریار، کامراج، ای ایم ایس نمبودریاد، جئے پرکاش نارائن کی کانگریس یہ جانتی تھی۔جیسا کہ دستورساز اسمبلی کے رکن امبیڈکر، دکشائینی ویلودھم ، امو سوامی ناتھن ، درگا بائی دیشمکھ، ہنسہ مہتا ، قدسیہ اعزاز راسو اور راجکماری امرت کور بھی یہ سمجھتے تھے ۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اکثریتوں کے مابین اقلیتوں کے موضوع اٹھانے سے اکثریتون کے کانٹر لاجگ کے امکان بڑھ جاتی ہے۔
ای ٹی وی بھارت: ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ ہندو حق پرستی کے تناظر سے دوبارہ لکھی جارہی ہے۔ ایسی چیز کے نتائج کیا ہوں گے؟
گوپال کرشن گاندھی: بھارتی تاریخ کسی بھی تاریخ کی طرح ہی ہے،تاریخ ان لوگوں کے ذریعہ نہیں لکھا جاتا جو لکھنا چاہتے ہیں۔یہ تو لوگوں کے دماغ میں بنے انمٹ چھاپ کی طرح ہیں۔
ای ٹی وی بھارت: موجودہ جمہوری اداروں اور تعلیمی اداروں کا اندازہ آپ کیسے کریں گے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے، کیا اس سے کبھی یہ ابھر پائے گا؟
گوپال کرشن گاندھی: مجھے لگتا ہے کہ بھارت اپنی سب سے بڑی کامیابی سے بڑا اور اپنی سب سے بڑی طاقت سے مضبوط ہے،کوئی بھی اس کی بنیاد کو ہلا نہیں سکتا ہے۔بھارت کے پہلے خلا باز راکیش شرما سے جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پوچھا تھا کہ آپ کو اوپر سے بھارت کیسا نطر آتا ہے ، تب انہوں نے بالکل اپنا وقت گنوائے 'اسے سارے جہاں سے اچھا ' بتایا تھا۔یہی بھارت کی طاقت ہے جس کوئی مٹا نہیں سکتا ہے۔