بھارت کو قدرت نے مختلف آب و ہوا کے حامل علاقے عطا کئے ہیں۔ بہت عرصہ قبل ہی سائنسدانوں نے متنبہ کیا تھا کہ 68 فیصد قابلِ کاشت زمین کو خشک سالی اور پانچ کروڑ ہیکٹر اراضی کو سیلاب سے دوچار ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔
بڑھتی ہوئیں قدرتی آفات نے ملک میں طرح طرح کی سماجی اور معاشی بحران پیدا کردیئے ہیں۔ مرکزی حکومت کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی محکمے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے منفی اثرات کے نتیجے میں کون کون سے شعبے متاثر ہوجائیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں جہار کھنڈ، میزورم، اُڑیسہ، چھتیس گڑھ، آسام، بہار، اروناچل پردیش اور مغربی بنگال سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ بعض ریاستوں میں موسمیاتی تبدیلی کا درمیانی درجے کا اثر پڑے گا۔
تاہم ایسی کوئی ریاست یا کوئی ضلع نہیں ہوگا، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قدرتی آفات کا سامنا نہ کرنا ہوگا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض ریاستوں میں کون کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہے۔
سمندری طوفانوں اور گرمی کی لہروں کی وجہ سے مچی ہوئی تباہی کی شدت کی بنیاد پر تیار کی گئی ایک عالمی رپورٹ میں بھارت کو 'ورلڈ کلائمیٹ رسک انڈیکس' یعنی موسماتی خطرات کی فہرست میں ساتویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
ملک کے اندر کئے گئے مختلف سروے سے پتہ چلا ہے کہ سال 1901 اور 2008 کے درمیان بھارت میں اوسط درجہ حرارت میں 0.7 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر آلودہ گیس کے اخراج کو قابو نہیں کیا گیا تو سال 2040 اور 2069 کے درمیان درجہ حرارت میں 2 ڈگری کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس پس منظر میں ایک ایکشن پلان، جس سے شہریوں کو قدرتی آفات سے بچایا جاسکتا ہے۔ کو فوری طور پر روبہ عمل لایا جانا چاہیے۔
جغرافیائی حجم کے لحاظ سے بھارت ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آبادی کے لحاظ سے بھارت بہت جلد چین کو پیچھے چھوڑ کر دُنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ اس صورتحال میں اگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب اور خشک سالی جیسے مسائل رونما ہوئے تو یہاں انسانوں کے لیے غذائی اجناس کی قلت بذات خود ایک خطرہ بن جائے گی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پیش گوئی کے مطابق شمال مشرقی بھارت اور شمالی بھارت میں خشک سالی ایک معمول ہوگا اور یہ خطے مستقبل میں بارشوں کی شدید قلت کا شکار ہوں گے۔
اسی رپورٹ میں یہ انتباہ بھی دیا گیا ہے کہ بھارت میں زرعی شعبہ کو سال 2030 تک 700 کروڑ امریکی ڈالرز کے برابر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور دس فیصد آبادی ختم ہوجائے گی۔ تاہم اگر آفات سے نمٹنے کے لیے مناسب پالیسیاں اختیار کی جائیں گی تو اس میں سے 80 فیصد نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان سال 2008 سے نافذ ہے۔ اس پالیسی کے تحت پانی اور زرعی شعبے سمیت 8 شعبوں میں بہتری لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ تاہم ابھی تک ان شعبوں میں کوئی قابلِ ذکر بہتری دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
اس ضمن میں حکومت کو فوری طور پر متحرک ہوجانا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی زرعی شعبے، جو ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، پر اپنے منفی اثرات مرتب کرنے جارہا ہے۔ کم وقت میں تیار ہونے والی فصلوں کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ پانی کی حفاظت کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال کو قابو کرنے اور ڈرپ اری گیشن جیسی نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
سمندروں کی حفاظت کرنے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر اور ایک مناسب ہیلتھ سیفٹی نظام کو قائم کرنے جیسے اقدامات سے ہم موسمیاتی تغیر کے مسائل سے با اثر طریقے سے نمٹنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔