کشور کمار نے تقریباً 1500 فلموں میں گانے گائے۔ آج بھی لوگ ان کے گانے بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ کشور کمار ایک عظیم گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ مصنف، فلم پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر بھی تھے۔
زندگی کے انجانے سفر سے بے حد محبت کرنے والے ہندی سنیما کے عظیم گلوکار کشور کمار کی پیدائش مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں 04 اگست 1929 کو متوسط بنگالی خاندان میں ایڈوکیٹ کنجی لال گانگولی کے گھر میں ہوئی۔
بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے شرارتی کشور کمار گانگولی عرف کشور کمار کا رجحان بچپن سے ہی باپ کے پیشے وکالت کی طرف نہ ہوکر موسیقی کی جانب تھا۔
عظیم اداکار اور گلوکار کے ایل سہگل کے نغموں سے متاثر کشور کمار انہیں کی طرح گلوکار بننا چاہتے تھے۔ سہگل سے ملنے کی خواہش لے کر کشور کمار 18 سال کی عمر میں ممبئی پہنچے، لیکن ان کی خواہش پوری نہیں ہو پائی۔
اس وقت تک ان کے بڑے بھائی اشوک کمار بطور اداکار اپنی شناخت بناچکے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کشور ہیرو کے طور پر اپنی شناخت بنائیں لیکن خود کشور کمار اداکاری کے بجائے گلوکار بننا چاہتے تھے حالانکہ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کبھی کسی سے حاصل نہیں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: گلوکار ہنی سنگھ کے خلاف گھریلو تشدد کا مقدمہ
بالی ووڈ میں اشوک کمار کی شناخت کی وجہ سے کشور کمار کو بطور اداکار کام مل رہا تھا۔ اپنی خواہش کے باوجود انہوں نے اداکاری جاری رکھی۔ جن فلموں میں وہ بطور آرٹسٹ کام کیا کرتے تھے انہیں اس فلم میں گانے کا بھی موقع مل جایا کرتا تھا۔
کشور کمار کی آواز سہگل سے کافی حد تک ملتی جلتی تھی۔ بطور گلوکار سب سے پہلے انہیں سال 1948 میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ضدی میں سہگل کے انداز میں ہی اداکار دیو آنند کے لیے 'مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں' گانے کا موقع ملا تھا۔
کشور کمار نے 1951 میں بطور اداکار فلم آندولن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا لیکن اس فلم سے ناظرین کے درمیان وہ اپنی شناخت نہیں بناسکے۔ سنہ 1953 میں ریلیز ہونے والی فلم' لڑکی 'بطور اداکار ان کے کیریئر کی پہلی ہٹ فلم تھی۔ کشور دا نے اپنے فلمی کیریئر میں 600 سے زیادہ ہندی گانوں کو اپنی آواز سے سجایا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ہندی بلکہ بنگلہ، مراٹھی، آسامی، گجراتی، کنڑ، بھوجپوری اور اڑیا فلموں میں نغمے گائے۔
سنہ 1969 میں پروڈیوسر و ڈائریکٹر شکتی سامنت کی فلم آرادھنا کے ذریعے کشور کمار موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بنے۔ انہوں نے کئی اداکاروں کو اپنی آواز دی لیکن کچھ موقعوں پر محمد رفیع نے ان کے لیے نغمے گائے تھے، ان میں 'ہمیں کوئی غم ہے تمہیں کوئی غم ہے'، چلے ہو کہاں کرکے جی بیقرار' جیسے نغمات شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد رفیع جو نغمے کشور کمار کے لیے گاتے تھے ان کی اجرت وہ صرف ایک روپیہ لیتے تھے۔
کشور کمار کے گائے نغمے 'میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو' 'روپ تیرا مستانہ' ناظرین نے بہت پسند کئے اور ان نغموں کے لیے انہیں بطور موسیقی کار پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ فلم آرادھنا کے ذریعے کشور کمار ان اونچائیوں پر پہنچ گئے جس کے لیے وہ سپنوں کے شہر ممبئی آئے تھے۔
سال 1987 میں کشور کمار نے فیصلہ کیا کہ وہ فلموں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد واپس اپنے گاؤں کھنڈوا لوٹ جائیں گے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ 'دودھ جلیبی کھائیں گے کھنڈوا میں بس جائیں گے' لیكن ان کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا اور 13 اکتوبر 1987 کو کشور کمار کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے چل بسے۔