باپو بیمار ہونے پر سنہ 1927 میں بنگلور میں ٹھہرے تھے۔ اس دوران انہوں نے امپیریل انسٹی ٹیوٹ (فی الحال نیشنل ڈیری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ،جنوب کا علاقائی اسٹیشن) میں 19 جون سے 14 دنوں تک جانوروں کے پالنے کی تربیت لی تھی۔ ان کے ساتھ پنڈت مدن موہن مالویہ نے بھی تربیت لی تھی۔ مالویہ نے بعد میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں ڈیری کی بنیاد رکھی تھی۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائیرکٹر کے پی رمیش کے مطابق امپیریل انسٹی ٹیوٹ کے وزیٹر بک میں مہاتما گاندھی کے نام کے ساتھ 'بیرسٹر' لکھا گیا تھا جسے انہوں نے قلم سے کاٹ کر خود کو'سابرمتی کا کسان' لکھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بنگلور میں انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اسے وہ اپنے یومیہ کاموں میں ضرور لائیں گے۔
سنہ 1927 میں انگریز ڈاکٹر موڈاك نے باپو کا آپریشن کیا تھا اور انہوں نے گاندھی جی کو بنگلور میں رہنے کی صلاح دی تھی۔ میسور کے مہاراجہ نے گاندھی جی کی شاہی مہمان کے طور پر میزبانی کی تھی۔ باپو جس کمار پارک کے سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرے تھے اسی کے بغل میں امپیریل انسٹی ٹیوٹ کے ڈیری کے ماہر ولیم اسمتھ کا دفتر تھا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر گاندھی جی مسٹر اسمتھ سے تقریباً ہر شام ملنے جا یا کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان ملک میں جانوروں کی نسل میں اصلاحات پر لمبی بحث ہوا کرتی تھی۔
گاندھی جی کو دیہات میں جانوروں کی نسل کوبہتر کرنے کے تئیں گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے مسٹر اسمتھ کی تجاویز کی بنیاد پر اپنے اخبار’ینگ انڈیا‘ میں متعدد مضامین لکھے۔ بعد میں ان کے خیالات ملک میں مقبول ہونے لگے اور جانوروں کی نسل میں اصلاحات حکومت کا اہم پروگرام بھی بنا۔ گاندھی جی نے پنجراپول نسل کے جانوروں میں بہتری کیلئے گہری دلچسپی دکھائی۔
مسٹر اسمتھ کے ساتھ روزانہ کی بات چیت سے گاندھی جی میں جانوروں کے انتظام کے بارے میں تربیت لینے کی خواہش پیدا ہوئی جس پر انہیں امپريل ڈیری انسٹی ٹیوٹ فارم جانے کا مشورہ دیا گیا۔ ڈاكٹروں نے انہیں صرف پانچ بجے سے پون گھنٹے کے لئے انہیں وہاں جانے کی اجازت دی۔ وہ ایک ڈیری کے طالب علم کی طرح روز شام ٹھیک پانچ بجے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اپنے ساتھ مدن موہن مالویہ کو بھی لے جاتے تھے۔
ملک سے ایک دور میں'جیبو' نسل کے جانوروں کو بیرون ملک برآمد کیا جاتا تھا جس کے خلاف مذہبی اور اقتصادی بنیاد پرتحریک شروع ہو گئی۔ ایسی سوچ بن گئی کہ ان جانوروں کو بیرون ملک لے جاکر گوشت کے لئے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ملک میں بہترین نسل کے جانور ختم ہو جائیں گے۔اس وقت گجرات میں گھی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔ خیال یہ تھا کہ جانوروں کی برآمدگی کے سبب گھی کی قیمت بڑھ رہے ہیں۔ گاندھی جی اس سے بہت فکر مند ہوئے لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ تحریک موجودہ مفاد پرست عناصر کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ ان جانوروں کو بیرون ملک میں مارا نہیں جاتا ہے۔ گجرات میں گھی کی پیداوار میں زیادہ تر بھینس کے دودھ کا استعمال ہوتا ہے۔ جانوروں کی برآمدگی سے جیبو نسل کے ختم ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس پر گاندھی جی نے حقائق جاننے کے بعد تحریک کو کوئی حمایت نہیں دی بلکہ اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
باپو گائے سے بے حد محبت کرتے تھے، لیکن وہ گائے بمقابلہ بھینس کے مذہبی جذبات کے چکر میں نہیں پھنسے۔ قابل ذکر ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف قانون بنانے کی بات گاندھی جی کے مشورہ پر ہی اٹھی تو مرکزی حکومت نے اس معاملہ پر مکمل اسٹڈی کے لئے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اچھے نسل کے جانوروں کے ذبیحہ پابندی عائد لگنی چاہئے۔اس سے جانوروں کے ذبیحہ کو لے کر لوگوں کی مخالفت کو کم کیا جا سکے گا۔ جب گاندھی جی کو غیر رسمی طور سے اس کی اطلاع دی گئی تو ان کا تبصرہ تھا کہ انہوں نے ایسا ہی سوچا تھا۔ اس سے گاندھی کے فلسفہ اور اصولوں کے عملی موقف کا پتہ چلتا ہے۔