ETV Bharat / bharat

عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل

اسلامی (ہجری) کیلنڈر کے آخری مہینہ ذی الحجّہ کے پہلے دس دنوں کو 'عشرہ ذِی الحجہ کہا جاتا ہے، حدیث شریف میں ان دس دنوں کی خاص فضیلت بتائی گئی ہے کہ عام دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ کو زیادہ پسند ہوتا ہے۔

eid ul adha
eid ul adha
author img

By

Published : Jul 28, 2020, 10:14 AM IST

ممتاز عالم دین حضرت مولانا منظور نعمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ 'جس طرح اللہ تعالی نے ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعہ کو اور سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور رمضان کے تین عشروں میں سے عشرۂ اخیر (یعنی رمضان کے آخری دس دنوں) کو خاص فضیلت بخشی ہے اسی طرح ذی الحجہ کے پہلے عشرہ (یعنی شروع کے دس دنوں) کو بھی فضل و رحمت کا خاص عشرہ قرار دیا ہے اور یہ رحمتِ خداوندی کا خاص عشرہ ہے۔

ذی الحجہ ان دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ تعالی کو بہت محبوب (پسند) ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا 'اللہ تعالی کو عمل صالح (نیک عمل) جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اُتنا کسی دوسرے دن میں نہیں۔ (بخاری شریف۔ ماخوذ از : مَعَارِفُ الحدیث جلد 3، صفحہ 417 ۔418)

ایک دوسری حدیث میں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ 'اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر کوئی عشرہ نہیں، اِس عشرہ میں (سوائے دسویں تاریخ کے یعنی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور اِس عشرہ کی ہر رات میں عبادت کرنا شب قدر میں عبادت کرنے کے برابر ہے۔ (ترمذی شریف و ابن ماجہ شریف)

قرآن مجید کی سورۂ الفجر میں اللہ تعالیٰ نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَلَیَالٍ عَشْرٍ) وہ دس راتیں جمہور علماء کے قول میں یہی عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں، خصوصاً نویں تاریخ یعنی عرفہ کا دن، عرفہ اور عید الاضحی کی درمیانی رات، یہ تمام اَیّام خاص فضیلت و اہمیت رکھتے ہیں۔

یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت:

ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو 'یوم عرفہ' کہا جاتا ہے، اس دن روزہ رکھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس دن روزہ رکھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ 'اللہ کی ذات سے امید ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گناہ (صغیرہ) معاف فرما دیں گے۔ (مسلم شریف)

  • ایّام تشریق:

ماہ ذی الحجہ کے پانچ دنوں (نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ ) کو 'ایّام تشریق' کہا جاتا ہے، ان پانچ دنوں میں یعنی نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیر تشریق یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَر، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْد۔ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند پڑھنا نمازی خواہ جماعت سے پڑھنے والا ہو یا تنہا، مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت سب پرواجب ہے، البتہ عورت آہستہ پڑھے۔

  • یوم النحر/ یوم الاضحٰی:

ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو 'یومُ النّحر، یومُ الاَضحٰی' یعنی قربانی کا دن، عیدُ الاضحی، عید قُرباں اور بقرعید' کہا جاتا ہے۔ اس دن اللہ تعالی کے نزدیک بندے کا سب سے پیارا عمل 'قربانی' ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی قربانی والے دن میں آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا (یعنی ان سب چیزوں کے بدلے ثواب ملے گا) اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی (کی رضا اور مقبولیت) کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو (اے خدا کے بندو!) تم لوگ خوش دلی سے قربانی کرو (زیادہ داموں کے خرچ ہوجانے پردل برا مت کیا کرو)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

  • نماز عید الاضحٰی:

عیدالاضحی کی نماز ہر مسلمان پر واجب ہے، یہ دو رکعت ہے عام نمازوں کی طرح۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اِس میں ہر رکعت میں تین تین زائد تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں ثنا (سبحانک اللّٰھم) پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے، ان زائد تکبیروں میں اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اُٹھانا چاہیے۔

پہلی رکعت میں دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں، تیسری تکبیر میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر زیر ناف باندھ لیں اور دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دیں، چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں۔

نماز عید کے بعد خطبہ سننا واجب ہے، خطبہ سنے بغیر نماز عید کا ثواب نامکمل اور ادھورا رہتا ہے۔

  • قربانی کی تاریخی حیثیت:

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے 'اور ہم نے (پچھلی) ہر امّت کے لیے (بھی) قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُن کو عطا فرمایا تھا، سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ ہے، لہٰذا تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو اور (اے نبی ﷺ) آپ (ایسے احکامِ الہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی) خوشخبری سنا دیجئے۔ (پارہ 17، سورۂ حج آیت 34) یہ آیت کریمہ بتلاتی ہے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے بلکہ قربانی ایک قدیم عبادت ہے جو پچھلی سب امتوں کے ذمہ مقرر کی گئی تھی۔

  • قربانی اور اس کا ثواب:

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، نیز حضرت ابراہیمؑ کی یادگار ہے اور اس کا بڑا اجر و ثواب ہے۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، اے اللہ کے رسول، یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے (نسبی یا روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔

صحابۂ کرام نے عرض کیا 'اے اللہ کے رسول! ہم کو اس میں کیا ملتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی، صحابۂ کرام نے عرض کیا اگر اون والا جانور ہوتو؟ آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی۔ (ابن ماجہ) اللہ اکبر!!! کیا کوئی جانور کے بال کا اندازہ کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے ثواب کا بھی کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔

رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد دس سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے (ترمذی شریف) جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر بستی میں ہر شخص پر شرائط پائے جانے کے بعد واجب ہے۔

  • قربانی کِس پر واجب ہے؟

قربانی ہر اُس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عاقل، بالغ اور مقیم ہو یعنی مسافر نہ ہو اور صاحبِ نصاب ہو۔ صاحبِ نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ضرورتِ اَصلیہ سے زائد یا تو ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس کی قیمت کا کوئی اور مال ہو۔

صاحب نصاب ہونے کے لیے ہر اس چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے جو ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہو، چاہے وہ زیورات ہوں، مالِ تجارت ہو، ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوں، رِہائِشی مکان سے زائد مکانات اور جائدادیں وغیرہ ہوں۔

قربانی واجب ہونے کے لیے مال نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی کسی طرح قربانی کے آخری والے دن بھی نصاب کا مالک بن گیا تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان یا آبرو (عزت) سے مُتعلق ہو یعنی جس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت و آبرو جانے کا اندیشہ ہو جیسے کھانے پینے کے ضروری سامان، پہننے کے کپڑے، رہنے کے لیے مکان، پیشہ وروں کے لیے اس کے پیشہ کے اوزار۔ اِن چیزوں کے ہونے کے بعد جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی جو موجودہ قیمت بنتی ہو اس کے برابر کوئی بھی مال ہو جیسا اوپر گذرا تو وہ صاحبِ نِصاب ہے، اس کے اوپر قربانی واجب ہے۔

  • ایام قربانی:

قربانی کا فریضہ صرف تین دن (دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ) ہی مخصوص ہے، اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں قربانی جائز نہیں، لہٰذا اگر قربانی کے دن گذر گئے اور قربانی اُس پر واجب تھی لیکن ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء، و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ ان تین دنوں میں جس دن چاہے قربانی کر سکتا ہے، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے اور قربانی رات میں کرنا بھی جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔

  • قربانی کا مسنون طریقہ:

جب جانور کو ذبح کرنے لیے قبلہ رو لِٹائے تو یہ آیت پڑھیں: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ حَنِیفاً وَّمَا اَنَا مِنَ المُشرِکِینَ، اِنَّ صَلوٰتِی وَنُسُکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرتُ وَاَنَا اَوَّلُ المُسلِمِینَ، اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنکَ۔

یہ آیت پڑھنے کے بعد بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر کہہ کر ذبح کرے اور ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلہٗ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلتَ مِن حَبِیبِکَ مُحَمَّدٍ وَّ خَلِیلِکَ اِبرَاھِیمَ عَلَیھِمَا السَّلَام۔

اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے لیکن ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے۔ دوسرے کی جانب سے ذبح کرنے والا مِنِّی کے بجائے مِن کہہ کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے۔

ممتاز عالم دین حضرت مولانا منظور نعمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ 'جس طرح اللہ تعالی نے ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعہ کو اور سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور رمضان کے تین عشروں میں سے عشرۂ اخیر (یعنی رمضان کے آخری دس دنوں) کو خاص فضیلت بخشی ہے اسی طرح ذی الحجہ کے پہلے عشرہ (یعنی شروع کے دس دنوں) کو بھی فضل و رحمت کا خاص عشرہ قرار دیا ہے اور یہ رحمتِ خداوندی کا خاص عشرہ ہے۔

ذی الحجہ ان دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ تعالی کو بہت محبوب (پسند) ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔

حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا 'اللہ تعالی کو عمل صالح (نیک عمل) جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اُتنا کسی دوسرے دن میں نہیں۔ (بخاری شریف۔ ماخوذ از : مَعَارِفُ الحدیث جلد 3، صفحہ 417 ۔418)

ایک دوسری حدیث میں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ 'اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر کوئی عشرہ نہیں، اِس عشرہ میں (سوائے دسویں تاریخ کے یعنی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور اِس عشرہ کی ہر رات میں عبادت کرنا شب قدر میں عبادت کرنے کے برابر ہے۔ (ترمذی شریف و ابن ماجہ شریف)

قرآن مجید کی سورۂ الفجر میں اللہ تعالیٰ نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَلَیَالٍ عَشْرٍ) وہ دس راتیں جمہور علماء کے قول میں یہی عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں، خصوصاً نویں تاریخ یعنی عرفہ کا دن، عرفہ اور عید الاضحی کی درمیانی رات، یہ تمام اَیّام خاص فضیلت و اہمیت رکھتے ہیں۔

یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت:

ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو 'یوم عرفہ' کہا جاتا ہے، اس دن روزہ رکھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس دن روزہ رکھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ 'اللہ کی ذات سے امید ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گناہ (صغیرہ) معاف فرما دیں گے۔ (مسلم شریف)

  • ایّام تشریق:

ماہ ذی الحجہ کے پانچ دنوں (نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ ) کو 'ایّام تشریق' کہا جاتا ہے، ان پانچ دنوں میں یعنی نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیر تشریق یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَر، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْد۔ ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند پڑھنا نمازی خواہ جماعت سے پڑھنے والا ہو یا تنہا، مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت سب پرواجب ہے، البتہ عورت آہستہ پڑھے۔

  • یوم النحر/ یوم الاضحٰی:

ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو 'یومُ النّحر، یومُ الاَضحٰی' یعنی قربانی کا دن، عیدُ الاضحی، عید قُرباں اور بقرعید' کہا جاتا ہے۔ اس دن اللہ تعالی کے نزدیک بندے کا سب سے پیارا عمل 'قربانی' ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی قربانی والے دن میں آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا (یعنی ان سب چیزوں کے بدلے ثواب ملے گا) اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی (کی رضا اور مقبولیت) کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو (اے خدا کے بندو!) تم لوگ خوش دلی سے قربانی کرو (زیادہ داموں کے خرچ ہوجانے پردل برا مت کیا کرو)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

  • نماز عید الاضحٰی:

عیدالاضحی کی نماز ہر مسلمان پر واجب ہے، یہ دو رکعت ہے عام نمازوں کی طرح۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اِس میں ہر رکعت میں تین تین زائد تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں ثنا (سبحانک اللّٰھم) پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے، ان زائد تکبیروں میں اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اُٹھانا چاہیے۔

پہلی رکعت میں دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں، تیسری تکبیر میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر زیر ناف باندھ لیں اور دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑ دیں، چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں۔

نماز عید کے بعد خطبہ سننا واجب ہے، خطبہ سنے بغیر نماز عید کا ثواب نامکمل اور ادھورا رہتا ہے۔

  • قربانی کی تاریخی حیثیت:

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے 'اور ہم نے (پچھلی) ہر امّت کے لیے (بھی) قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُن کو عطا فرمایا تھا، سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ ہے، لہٰذا تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو اور (اے نبی ﷺ) آپ (ایسے احکامِ الہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی) خوشخبری سنا دیجئے۔ (پارہ 17، سورۂ حج آیت 34) یہ آیت کریمہ بتلاتی ہے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے بلکہ قربانی ایک قدیم عبادت ہے جو پچھلی سب امتوں کے ذمہ مقرر کی گئی تھی۔

  • قربانی اور اس کا ثواب:

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، نیز حضرت ابراہیمؑ کی یادگار ہے اور اس کا بڑا اجر و ثواب ہے۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، اے اللہ کے رسول، یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے (نسبی یا روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔

صحابۂ کرام نے عرض کیا 'اے اللہ کے رسول! ہم کو اس میں کیا ملتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی، صحابۂ کرام نے عرض کیا اگر اون والا جانور ہوتو؟ آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی۔ (ابن ماجہ) اللہ اکبر!!! کیا کوئی جانور کے بال کا اندازہ کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے ثواب کا بھی کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔

رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد دس سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے (ترمذی شریف) جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر بستی میں ہر شخص پر شرائط پائے جانے کے بعد واجب ہے۔

  • قربانی کِس پر واجب ہے؟

قربانی ہر اُس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عاقل، بالغ اور مقیم ہو یعنی مسافر نہ ہو اور صاحبِ نصاب ہو۔ صاحبِ نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ضرورتِ اَصلیہ سے زائد یا تو ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس کی قیمت کا کوئی اور مال ہو۔

صاحب نصاب ہونے کے لیے ہر اس چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے جو ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہو، چاہے وہ زیورات ہوں، مالِ تجارت ہو، ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوں، رِہائِشی مکان سے زائد مکانات اور جائدادیں وغیرہ ہوں۔

قربانی واجب ہونے کے لیے مال نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی کسی طرح قربانی کے آخری والے دن بھی نصاب کا مالک بن گیا تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان یا آبرو (عزت) سے مُتعلق ہو یعنی جس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت و آبرو جانے کا اندیشہ ہو جیسے کھانے پینے کے ضروری سامان، پہننے کے کپڑے، رہنے کے لیے مکان، پیشہ وروں کے لیے اس کے پیشہ کے اوزار۔ اِن چیزوں کے ہونے کے بعد جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی جو موجودہ قیمت بنتی ہو اس کے برابر کوئی بھی مال ہو جیسا اوپر گذرا تو وہ صاحبِ نِصاب ہے، اس کے اوپر قربانی واجب ہے۔

  • ایام قربانی:

قربانی کا فریضہ صرف تین دن (دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ) ہی مخصوص ہے، اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں قربانی جائز نہیں، لہٰذا اگر قربانی کے دن گذر گئے اور قربانی اُس پر واجب تھی لیکن ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء، و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ ان تین دنوں میں جس دن چاہے قربانی کر سکتا ہے، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے اور قربانی رات میں کرنا بھی جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔

  • قربانی کا مسنون طریقہ:

جب جانور کو ذبح کرنے لیے قبلہ رو لِٹائے تو یہ آیت پڑھیں: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ حَنِیفاً وَّمَا اَنَا مِنَ المُشرِکِینَ، اِنَّ صَلوٰتِی وَنُسُکِی وَمَحیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرتُ وَاَنَا اَوَّلُ المُسلِمِینَ، اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنکَ۔

یہ آیت پڑھنے کے بعد بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر کہہ کر ذبح کرے اور ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلہٗ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلتَ مِن حَبِیبِکَ مُحَمَّدٍ وَّ خَلِیلِکَ اِبرَاھِیمَ عَلَیھِمَا السَّلَام۔

اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے لیکن ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے۔ دوسرے کی جانب سے ذبح کرنے والا مِنِّی کے بجائے مِن کہہ کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.