ETV Bharat / bharat

امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے - undefined

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی۔

امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے
امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 9:53 PM IST

Updated : Mar 3, 2020, 12:12 AM IST

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے آج امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوگئے، اور اس کا متن جاری کردیا گیا۔

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی
امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے، تو نیٹو افغانستان سے اپنی فوج 14 ماہ کے اندر اندر واپس بلا لے گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا۔

اطلاع کے مطابق معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا۔

امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟
امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

وہیں دوسری جابب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا۔

معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا
معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاہدہ پر بھارتی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہوں گے، بظاہر جہاں افغانستان میں اٹھارہ برس سے زیادہ سے چلی آرہی طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے، وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جارہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا
امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہو تی ہے اور طالبان اور حکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا کارگر ہوتا ہے۔؟

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد مواقع پر ملاقاتیں کیں اور اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی، اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے۔

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے۔

مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا
مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا

چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے، لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغانستان اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جارہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔

ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، باوجود اس کے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کے لیے بری طرح بے قابو ہوسکتے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے آج امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوگئے، اور اس کا متن جاری کردیا گیا۔

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی
امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے، تو نیٹو افغانستان سے اپنی فوج 14 ماہ کے اندر اندر واپس بلا لے گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا۔

اطلاع کے مطابق معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا۔

امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟
امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

وہیں دوسری جابب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا۔

معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا
معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاہدہ پر بھارتی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہوں گے، بظاہر جہاں افغانستان میں اٹھارہ برس سے زیادہ سے چلی آرہی طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے، وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جارہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا
امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہو تی ہے اور طالبان اور حکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا کارگر ہوتا ہے۔؟

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد مواقع پر ملاقاتیں کیں اور اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی، اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے۔

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے۔

مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا
مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا

چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے، لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغانستان اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جارہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔

ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، باوجود اس کے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کے لیے بری طرح بے قابو ہوسکتے ہیں۔

Last Updated : Mar 3, 2020, 12:12 AM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.