اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم ( یونیسکو) نے رواں برس مئی تا ستمبر کے دوران ایک سروے کیا ہے۔ اس سروے کا نام ' 2030 میں دنیا' رکھا گیاہے۔ اس سروے میں دنیا بھر سے تقریبا 15 ہزار افراد نے حصہ لیا۔
اس تحقیق میں شامل لوگوں نے اپنی اپنی رائے میں اس بات کی جانب یقین دہانی کرائی کہ' آب و ہوا میں تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، تشدد، تنازعہ، امتیازی سلوک، عدم مساوات، غذا، پانی کی کمی اور رہائش کی کمی، ایک پر امن معاشرے کےلیے یہ چار سب سے بڑے چیلینجز ہیں جن سے عالمی پیمانہ پر لوگوں کو سنہ 2030 تک سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ساتھ ہی لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ تعلیم کی متعدد شکلوں کے ذریعے ان مشکلات سے بآسانی باہر نکلا جا سکتا ہے مزید جب کچھ لوگوں نے عالمی تعاون کی اہمیت کو بڑی حد تک بیان کیا تو اس بات سے بہت کم لوگ مطمئن تھے کہ دنیا اپنے مشترکہ چیلنجز کا موثر انداز میں کوئی حل نکال سکے گی۔
مزید اس تحقیق سے ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان سے لاحق خطرات کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر آگاہی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بحران اب بھی عالمی، علاقائی اور مقامی سطح پر صاف طور پر نظر آرہے ہیں۔ مگر ایک ہی وقت میں موجودہ رجحانات کو جاننے کے لیے بین الاقوامی تعاون اہم ثابت ہوگا۔
اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا تھا انہوں نے سب سے زیادہ اس چیلنجز کو بین الاقوامی سطح پر آبادی کو متاثر کرنے اور گھر کے قریب ہونے کی نشاندہی کی۔ اسی کے ساتھ ہی لوگ قدرتی آفات، سخت موسم، حیاتیاتی تنوع میں کمی، تنازعات یا تشدد کا خطرہ، سمندروں پر اثرات اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سب سے زیادہ فکر مند تھے۔
مزید پڑھیں:
ایران کو امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کی امید
اس سروے میں شامل افراد نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کچھ ایسے خاص نکات کا بھی ذکر کیا جن سبز سرمایہ کاری، تعلیم میں پائیداری، بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور سائنس میں اعتماد پیدا کرنے کے ذریعے ہی ان چیلنجز سے نمٹاجا سکتا ہے۔ ان نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع میں یونیسکو کے کام کے ساتھ ساتھ آفات کے خطرات میں کمی، پائیدار ترقی کے لئے تعلیم ، سمندری صحت اور کھلی سائنس ماحولیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے خلاف جنگ میں ایک قابل قدر وسائل ہیں۔