ETV Bharat / bharat

بھارتی یو نیورسٹیوں کا پوشیدہ پہلو

یونیورسیٹوں میں پروفیسروں کے بھرتی عمل کو اعلیٰ حکام کے سپرد کیا گیا ہے، جس وجہ سے کئی وائس چانسلروں نے اس عمل کو بھی بدعنوانی کا شکار بنا دیا ہے۔یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے پاس پروفیسروں کے ناشائستہ رویہ کے خلاف آنے والی رپورٹ عام سی بات ہوگئی ہے

author img

By

Published : Feb 25, 2020, 12:26 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 12:30 PM IST

بھارتی یو نیورسٹیوں کا پوشیدہ پہلو
بھارتی یو نیورسٹیوں کا پوشیدہ پہلو

یونیورسٹیاں یا دانش گاہیں حصول تعلیم اور نظم و ضبط کے اعلی مراکز ہیں، لیکن کچھ پروفیسروں کا رویہ یہاں پرخطر ہے۔جو پیشہ اصولوں اور اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے برعکس اس کے کچھ پروفیسر طلباء اور تحقیقی دانشوروں کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ پروفیسر طلباء کو جنسی طور پر بھی ہراساں کرتے ہیں اور بالآخر ان کا ٹھکانہ جیل ہوتا ہے۔

آندھرا یونیورسٹی میں گزشتہ دو ہفتوں میں محض تین پروفیسروں پر طلبا کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد ہوا ہے، جن میں دو پروفیسروں کو 4 روز تک استفسار کیا گیا اور کونسلنگ سیشن میں شمولیت کی ہدایت دی گئی ہے اور انہیں اس تنبیہ کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی کہ اگر انہوں نے مستقبل میں اس طرح کا جرم کیا تو انہیں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

یہ معاملہ اس وقت بے نقاب ہوا جب متاثرین کے پاس شکایات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔یہ مسئلہ صرف آندھرا یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں ہے۔تمام دانش گاہوں اور کالجوں کی طالبات کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کچھ ایک کو رقومات کیلئے ہراساں کیا جاتا ہے اور کچھ ایک کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی روش چل پری ہے۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے زیر اہتمام چلنے والی میڈیکل کالجوں میں کچھ طالبات نے ایسے معاملے میں جہاں خاموشی اختیار کی وہیں دوسری طرف طلبا نے تھک ہار کر خود کشی کرکے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرڈالا۔

سنہ 1988میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروفیسروں کے روایہ اور ضوابط کیلئے رہنما خطوط جاری کئے اور اس کیلئے یو جی سی نے ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا تاکہ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں کے نمائندوں اور تدریسی عملہ سے خصوصی نشستوں کے بعد پیشہ وارانہ اصولوں کے ضوابط مرتب کیا جائے۔

تعلیم کے میدان میں داخل ہونے والے ان پروفیسروں کو دل سے ان عملیاتی ضوابط کا تعاقب کرنا چاہے، تاہم بیشتر پروفیسر اس کی بنیادی بیداری اور جانکاری سے محروم ہوتے ہیں۔کچھ ایک کو ان عملیاتی اصولوں کی موجودگی کا بھی علم نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ پروفیسروں کیلئے عام بات بن جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہے وہ روایہ اور طریقہ کار اختیار کرلیتے ہیں۔

وہیں عملیاتی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کیلئے سخت رہنما خطوط کی عدم موجودگی، یونیورسٹی گرانسٹس کمیشن کی ہدیات اب فرسودہ بن چکے ہیں۔ حکومت بھی ان پروفیسروں کے خلاف متحرک کاروائی کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے جو اس طرح کی غیر اخلاقی اور غیر پیشہ وارانہ حرکتوں میں ملوث ہے۔اس کے نتیجے میں یونیورسٹیاں اور کالج سیاست اور فرقہ واریت کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

چانسلروں،راجسٹراروں اور ڈین کے عہدوں پر تعیناتی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طلاب کو نظم و ضبط اور بہتر رویہ اختیار کرنے کا درس دینے کے بجائے پروفیسر بھی فرقوں کی بنیاد پر گرپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ دانشگاہوں تحقیق اور نئی چیزوں اور جدیدیت کے مراکز ہے، وہاں تدریسی اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانے کیلئے طلاب کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے آزادانہ ماحول سے خود اردایت سے لیس کرنا لازمی ہے۔

تحقیقی طلاب کو اس بات کا حق نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے ان پروفیسروں سے سوالات کریں، جو غیر متواتر طور پر کلاسوں میں آتے ہیں۔ اگر کوئی پروفیسروں کے خلاف شکایت کرتا ہے، تو انہیں اپنی پی ایچ ڈی ڈگریوں کی امید اور خواب کو ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے۔ طلاب کو کسی بھی طرح کے پروفیسر کو جھیلنا پڑتا ہے جو ان کیلئے مقرر کیا جاتا ہے۔

طلاب کو اپنے موجودہ گائڈ کی اجازت لینا لازمی بن جاتا ہے اگر وہ گائڈ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔اس طرح کے غیر تحریر شدہ ضوابط طلاب پر تھوپے جاتے ہیں، پروفیسر اپنے ناشائستہ روایہ کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں کچھ ایک یونیورسٹیوں میں ایسے مثالیں بھی سامنے آئی ہے، جہاں پرفیسروں کو منتخب کرنے کے عمل میں آپسی چپقلش کے نتیجے میں بھرتی عمل بھی متاثر ہوا ہے۔

دانش گاہوں میں پروفیسروں کے بھرتی عمل کو اعلیٰ حکام کے سپرد کیا گیا ہے، جس وجہ سے کئی وائس چانسلروں نے اس عمل کو بھی بدعنوانی کا شکار بنا دیا ہے۔یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے پاس پروفیسروں کے ناشائستہ رویہ کے خلاف آنے والی رپورٹ عام سی بات ہوگئی ہے۔وہیں گورنر کے دفتر نے اس طرح کی شکایتوں کی تحقیقات کی واضح ہدایات بھی دی ہے، تاہم پروفیسروں کو اس کی پرواہ نا ہونے کے برابر ہے۔ان شکایات کو کئی ایک وجوہات کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان پروفیسروں کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں لائی نہیں جاتی۔

کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ خواتین کو یونیورسٹیوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے عمل کی تحقیقات اور تحفظ فراہم کی جائے۔ان کمیٹیوں میں ممبران کی کمی کے نتیجے میں بیشتر شکایتیں کا نا ہی ازالہ ہوتا ہے اور نا ہی ان کی طرف دھیان دیا جاتا ہے۔پروفیسروں کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کئی ایک مثالیں بھی سامنے آئی، جس نے نظام میں کمیوں اور کوتاہیوں کو بھی اجاگر کیا۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فرسودہ قواعد و ضوابط میں ترامیم کی جائے۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نہ صرف متواتر طور پر وقفہ وقفہ سے رہنما خطوط میں اصلاح کریں، بلکہ ایسا ماحول بھی فراہم کریں جن میں اس طرح کے رہنمائے خطوط کوقابل عمل بنا کر انکا زمینی سطح پر اطلاق بھی کیا جائے۔

یونیورسٹیاں یا دانش گاہیں حصول تعلیم اور نظم و ضبط کے اعلی مراکز ہیں، لیکن کچھ پروفیسروں کا رویہ یہاں پرخطر ہے۔جو پیشہ اصولوں اور اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے برعکس اس کے کچھ پروفیسر طلباء اور تحقیقی دانشوروں کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ پروفیسر طلباء کو جنسی طور پر بھی ہراساں کرتے ہیں اور بالآخر ان کا ٹھکانہ جیل ہوتا ہے۔

آندھرا یونیورسٹی میں گزشتہ دو ہفتوں میں محض تین پروفیسروں پر طلبا کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد ہوا ہے، جن میں دو پروفیسروں کو 4 روز تک استفسار کیا گیا اور کونسلنگ سیشن میں شمولیت کی ہدایت دی گئی ہے اور انہیں اس تنبیہ کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی کہ اگر انہوں نے مستقبل میں اس طرح کا جرم کیا تو انہیں اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

یہ معاملہ اس وقت بے نقاب ہوا جب متاثرین کے پاس شکایات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔یہ مسئلہ صرف آندھرا یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں ہے۔تمام دانش گاہوں اور کالجوں کی طالبات کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کچھ ایک کو رقومات کیلئے ہراساں کیا جاتا ہے اور کچھ ایک کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی روش چل پری ہے۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے زیر اہتمام چلنے والی میڈیکل کالجوں میں کچھ طالبات نے ایسے معاملے میں جہاں خاموشی اختیار کی وہیں دوسری طرف طلبا نے تھک ہار کر خود کشی کرکے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرڈالا۔

سنہ 1988میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروفیسروں کے روایہ اور ضوابط کیلئے رہنما خطوط جاری کئے اور اس کیلئے یو جی سی نے ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا تاکہ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں کے نمائندوں اور تدریسی عملہ سے خصوصی نشستوں کے بعد پیشہ وارانہ اصولوں کے ضوابط مرتب کیا جائے۔

تعلیم کے میدان میں داخل ہونے والے ان پروفیسروں کو دل سے ان عملیاتی ضوابط کا تعاقب کرنا چاہے، تاہم بیشتر پروفیسر اس کی بنیادی بیداری اور جانکاری سے محروم ہوتے ہیں۔کچھ ایک کو ان عملیاتی اصولوں کی موجودگی کا بھی علم نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ پروفیسروں کیلئے عام بات بن جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہے وہ روایہ اور طریقہ کار اختیار کرلیتے ہیں۔

وہیں عملیاتی ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کیلئے سخت رہنما خطوط کی عدم موجودگی، یونیورسٹی گرانسٹس کمیشن کی ہدیات اب فرسودہ بن چکے ہیں۔ حکومت بھی ان پروفیسروں کے خلاف متحرک کاروائی کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے جو اس طرح کی غیر اخلاقی اور غیر پیشہ وارانہ حرکتوں میں ملوث ہے۔اس کے نتیجے میں یونیورسٹیاں اور کالج سیاست اور فرقہ واریت کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

چانسلروں،راجسٹراروں اور ڈین کے عہدوں پر تعیناتی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طلاب کو نظم و ضبط اور بہتر رویہ اختیار کرنے کا درس دینے کے بجائے پروفیسر بھی فرقوں کی بنیاد پر گرپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ دانشگاہوں تحقیق اور نئی چیزوں اور جدیدیت کے مراکز ہے، وہاں تدریسی اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانے کیلئے طلاب کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے آزادانہ ماحول سے خود اردایت سے لیس کرنا لازمی ہے۔

تحقیقی طلاب کو اس بات کا حق نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے ان پروفیسروں سے سوالات کریں، جو غیر متواتر طور پر کلاسوں میں آتے ہیں۔ اگر کوئی پروفیسروں کے خلاف شکایت کرتا ہے، تو انہیں اپنی پی ایچ ڈی ڈگریوں کی امید اور خواب کو ادھورا چھوڑنا پڑتا ہے۔ طلاب کو کسی بھی طرح کے پروفیسر کو جھیلنا پڑتا ہے جو ان کیلئے مقرر کیا جاتا ہے۔

طلاب کو اپنے موجودہ گائڈ کی اجازت لینا لازمی بن جاتا ہے اگر وہ گائڈ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔اس طرح کے غیر تحریر شدہ ضوابط طلاب پر تھوپے جاتے ہیں، پروفیسر اپنے ناشائستہ روایہ کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں کچھ ایک یونیورسٹیوں میں ایسے مثالیں بھی سامنے آئی ہے، جہاں پرفیسروں کو منتخب کرنے کے عمل میں آپسی چپقلش کے نتیجے میں بھرتی عمل بھی متاثر ہوا ہے۔

دانش گاہوں میں پروفیسروں کے بھرتی عمل کو اعلیٰ حکام کے سپرد کیا گیا ہے، جس وجہ سے کئی وائس چانسلروں نے اس عمل کو بھی بدعنوانی کا شکار بنا دیا ہے۔یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے پاس پروفیسروں کے ناشائستہ رویہ کے خلاف آنے والی رپورٹ عام سی بات ہوگئی ہے۔وہیں گورنر کے دفتر نے اس طرح کی شکایتوں کی تحقیقات کی واضح ہدایات بھی دی ہے، تاہم پروفیسروں کو اس کی پرواہ نا ہونے کے برابر ہے۔ان شکایات کو کئی ایک وجوہات کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان پروفیسروں کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں لائی نہیں جاتی۔

کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ خواتین کو یونیورسٹیوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے عمل کی تحقیقات اور تحفظ فراہم کی جائے۔ان کمیٹیوں میں ممبران کی کمی کے نتیجے میں بیشتر شکایتیں کا نا ہی ازالہ ہوتا ہے اور نا ہی ان کی طرف دھیان دیا جاتا ہے۔پروفیسروں کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کئی ایک مثالیں بھی سامنے آئی، جس نے نظام میں کمیوں اور کوتاہیوں کو بھی اجاگر کیا۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فرسودہ قواعد و ضوابط میں ترامیم کی جائے۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نہ صرف متواتر طور پر وقفہ وقفہ سے رہنما خطوط میں اصلاح کریں، بلکہ ایسا ماحول بھی فراہم کریں جن میں اس طرح کے رہنمائے خطوط کوقابل عمل بنا کر انکا زمینی سطح پر اطلاق بھی کیا جائے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 12:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.