ETV Bharat / bharat

آمدنی سے زائد اثاثے کے معاملے پر وزارت قانون کوسپریم کورٹ کی پھٹکار

سپریم کورٹ نے مرکزی وزارت قانون کی زبردست سرزنش کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی آمدنی سے زائد اثاثے کا پتہ لگانے کے لیے کوئی نظام کیوں نہیں وضع کیاگیا۔

فائل فوٹو
author img

By

Published : Mar 12, 2019, 3:22 PM IST

Updated : Mar 12, 2019, 3:28 PM IST

عدالت عظمیٰ نے وزارت قانون سے دو ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اس سلسلے میں کورٹ نے وزارت قانون سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے حکم کے باوجود گذ شتہ چند برسوں میں امیدواروں کی جائیداد میں آمدنی سے زیادہ ترقی کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مستقل نظام کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے قانون ساز کے سیکشن کے سیکریٹری سے دوہفتے میں جواب بھی طلب کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھا ہے کہ فارم 26 میں اس اعلان کو کیوں نہیں شامل کیا گیا ہے۔ جس کے تحت امیدوار کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے شرائط کے تحت نااہل ہیں۔

خیال رہے کہ یہ باتیں لوک پرہری ادارے کی جانب سے داخل توہین عدالت کی عرضی پر سماعت کے دوران کہی ہیں۔

واضح رہے کہ 15فروری 2018 کو انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں ایک فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ انتخابات میں نامزدگی کے وقت امیداور کو اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کی آمدنی کے ذرائع کا بھی ظاہر کرنا ہوگا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کچھ اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی کی املاک میں پانچ سو گنا اضافے پر بھی سوال کھڑے کیے۔

اس سلسلے میں کورٹ نے کہا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ ہے کہ اراکین پارلیمان سے متعلق مکمل معلومات کو رائے دہندگان تک پہنچائے اور حکومت ایسا میکانزم بنائے جس کے ذریعے ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی کے اثاثے پر نظر رکھی جا سکے اور اس کا ڈیٹا جمع کیا جا سکے۔

عدالت عظمیٰ نے وزارت قانون سے دو ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اس سلسلے میں کورٹ نے وزارت قانون سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے حکم کے باوجود گذ شتہ چند برسوں میں امیدواروں کی جائیداد میں آمدنی سے زیادہ ترقی کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مستقل نظام کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے قانون ساز کے سیکشن کے سیکریٹری سے دوہفتے میں جواب بھی طلب کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھا ہے کہ فارم 26 میں اس اعلان کو کیوں نہیں شامل کیا گیا ہے۔ جس کے تحت امیدوار کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے شرائط کے تحت نااہل ہیں۔

خیال رہے کہ یہ باتیں لوک پرہری ادارے کی جانب سے داخل توہین عدالت کی عرضی پر سماعت کے دوران کہی ہیں۔

واضح رہے کہ 15فروری 2018 کو انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں ایک فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ انتخابات میں نامزدگی کے وقت امیداور کو اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کی آمدنی کے ذرائع کا بھی ظاہر کرنا ہوگا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کچھ اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی کی املاک میں پانچ سو گنا اضافے پر بھی سوال کھڑے کیے۔

اس سلسلے میں کورٹ نے کہا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ ہے کہ اراکین پارلیمان سے متعلق مکمل معلومات کو رائے دہندگان تک پہنچائے اور حکومت ایسا میکانزم بنائے جس کے ذریعے ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی کے اثاثے پر نظر رکھی جا سکے اور اس کا ڈیٹا جمع کیا جا سکے۔

Intro:Body:

danish afroz


Conclusion:
Last Updated : Mar 12, 2019, 3:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.