علاوہ ازیں آئی پی ایل کے پہلے ایونٹ کے لئے ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کو حکومت ہند کی منظوری کی ضرورت ہے۔آئی پی ایل کے انعقاد سے متعلق اہم تشویش قرنطینہ ، جانچ اور آئسولیشن پروٹوکول سے متعلق ہے۔ تمام فرنچائزز کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اگر کسی ٹیم کا ممبر کورونا وائرس سے متاثر ہو جاتا ہے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟۔
اس کے بعد کیا ٹیم کے سبھی ممبروں کی کورونا وائرس کی جانچ ہوگی؟ کیا تمام ممبروں کو ایک ہی ہوٹل میں آئسولیشن میں رکھا جائے گا اور اگر ٹیم کے دیگر ممبران بھی وہاں قیام کرتے ہیں تو اگلا میچ منسوخ یا ملتوی کردیا جائے گا جب تک کہ سب کی جانچ نہیں ہوجاتی۔
فرنچائزز یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی ممبر بائیو سیکیور پروٹوکول کے ضابطےکی خلاف ورزی کرے تو کیا ہوگا؟۔ انگلینڈ کے کرکٹر جوفراآرچر نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ میں اس اصول کی خلاف ورزی کی تھی جب انہیں پانچ دن تک آئسولیشن میں رہنا پڑا تھا اور ان کے دو کورونا ٹیسٹ منفی ہونے کے بعد ہی ٹیم میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
گورننگ کونسل کے اجلاس میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کے دوران ٹیم کے ممبروں کو کویڈ 19 کو کتنی بار اور کس وقت جانچ کرانا ہوگی؟ کیا یہ جانچ بی سی سی آئی کرے گی یا فرنچائز اس کے لئے پوری طرح ذمہ دار ہوگی؟
آئی پی ایل کا میچ بایو سیکیور ماحول میں کھیلا جائے گا ، لیکن اس سے متعلق کچھ خدشات تمام فرنچائزز کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔
اس کی توقع کی جارہی ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران میچ کے عہدیداروں ، براڈکاسٹروں ، مقامی عہدیداروں اور دیگر افراد کے لئے جیو سیلیور ماحول ہوگا۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کھلاڑی کے کنبے کے افراد ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر اس کا انتظام کیسے ہوگا؟۔
ٹیم کو ٹورنامنٹ کے دوران تین شہر دبئی ، ابوظبی اور شارجہ کا بھی دورہ کرنا ہوگا اور اس دوران جیو سیکیور ماحول کی صورتحال کیا ہوگی۔فرنچائزز کو یہ بھی خدشہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ٹیم کو کسی ایسے ہوٹل میں تو نہیں ٹہرایا جائے گا جہاں سیاحوں کا قیام ہو ۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے آئی پی ایل کے دوران تمام ٹیموں کو تقریبا 80 دن قیام کرنا پڑے گا اور فرنچائز کی یہ ایک بڑی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اتنے لمبے عرصے تک اپنے معاشرتی دوری کا خیال رکھے۔
کچھ فرنچائزز نے گورننگ کونسل کو بتایا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو کم سے کم تین ہفتوں کا ٹریننگ کا وقت دینے کے لئے 20 یا 21 اگست تک متحدہ عرب امارات پہنچانا چاہتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ تر کھلاڑیوں نے کچھ مہینوں سے ٹریننگ نہیں لی ہے اور نہ ہی میدان میں اترے ہیں۔
کچھ فرنچائزز نے پہلے ہی اپنی ٹیموں کے لئے ہوٹلوں کا انتخاب کرلیا ہے اور اب وہ مزید انتظامات کے بارے میں گورننگ کونسل کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ فرنچائزز آئی پی ایل کے عہدیداروں کی منظوری کے ساتھ ہی ہوٹل سے متعلق انتظامات مکمل کریں گی۔فرنچائز کے لئے ایک اور بڑی پریشانی یہ ہے کہ جنوبی افریقی کھلاڑی آئی پی ایل سے باہر ہو سکتے ہیں جس طرح انہوں نے سی پی ایل کے دوران کیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سلسلے میں کیا اصول ہوں گے؟۔
اس کے علاوہ اگر کوئی کھلاڑی ٹورنامنٹ کے دوران زخمی ہوتا ہے تو اس کی جگہ دوسرے کھلاڑی کی صورتحال کیا ہوگی؟ اگر اس کھلاڑی کی جگہ کسی اور کھلاڑی کو بلایا جاتا ہے تو اس کے پہلے سے بائیو سیکیورماحول میں اس کے داخلے سے متعلق جانچ اور قرنطین سے متعلق کیا اصول ہوں گے؟ کیا ٹورنامنٹ سے قبل اضافی کھلاڑیوں کو لے جانے سے متعلق حد میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ فرنچائزز کے پاس کھلاڑیوں کے لئے مزید اختیارات ہوں۔
فرنچائز کے لئے ایک اور تشویش یہ ہے کہ انگلینڈ آسٹریلیا ون ڈے سیریز ستمبر کے دوسرے ہفتے تک جاری رہنے کا امکان ہے اور آئی پی ایل کا آغاز 19 ستمبر سے ہوگا۔ ایسی صورتحال میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کے پہلے چند میچوں میں غیر حاضر ہونا پڑ سکتا ہے کیونکہ آسٹریلیائی کھلاڑی ڈیوڈ وارنر نے بھی اس ہفتے اس طرح کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان میں آئی پی ایل کے دوران ہر فرنچائز کے اضافی نیٹ بولر ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جیو سیکیور ماحول اور دیگر بہت سی پابندیوں میں اس بار متحدہ عرب امارات کی تمام آٹھ ٹیموں کا انتظام کیسے کر پائے گا؟ حالیہ ٹیسٹ سیریز میں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے بایو سیکیور ماحول میں اضافی کھلاڑی موجود تھے کیا آئی پی ایل میں بھی فرنچائز کو اسی طرح کی اجازت دی جائے گی؟۔
ئی پی ایل کی تمام آٹھ ٹیموں کے لئے صرف تین جگہوں کا شیڈول ہے اور فرنچائزز اپنی ٹیموں کے ٹریننگ شیڈول کے لئے واضح منصوبہ چاہتے ہیں کیونکہ معاشرتی فاصلے کی وجہ سے تمام ٹیموں کو ایک ہی جگہ پر تربیت دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چونکہ فرنچائز کو اپنی ٹیم کا سفر کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے بسوں کا انتظام کرنا پڑسکتا ہے۔ فرنچائزز چاہتے ہیں کہ صورتحال جلد سے جلد واضح ہوجائے تاکہ کھلاڑیوں کو ان کی تیاری میں سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کے دوران تقریبا ہر روز ٹریننگ اور میچوں کے لئے بس میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ آئی پی ایل کے دوران کھلاڑیوں کے متعدد ہوٹل کے عملہ ، کیٹررز ، سیکیورٹی افسران اور دیگر سے رابطے ہوں گے۔ فرنچائزز کو اس سوال کے جوابات درکار ہیں کہ ایسی صورتحال میں کھلاڑیوں کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ کیا بس ڈرائیوروں اور ہوٹلوں کے کارکنوں کو بھی جیو سیکیور ماحول کا حصہ بننا پڑے گا؟ کیا گورننگ کونسل کا اس کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟۔