خوفناک کورونا وائرس ،جو چین کے ووہان شہر سے پیدا ہوکر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس نے پہلے ہی دُنیا کے 210 ممالک اور علاقوں میں 150,000 جانیں لے لی ہیں۔ ابھی تک نہ اس وائرس کا خاتمہ ہوتے نظر آرہا ہے اور نہ کہیں کوئی علاج یا ویکسین ہی دستیاب ہو پایا ہے۔ ہر ملک اس مسئلے کے حل کیلئے عملاََ جستجو کر رہا ہے لیکن کہیں کوئی ٹھوس وضاحت نہیں ہے کہ آگے کیا ہوگا ۔ کئی ممالک جیسے اسرائیل، کوریا، جرمنی، بھارت، سنگاپور اور جاپان بہت سرگرمی کے ساتھ وبا کے ساتھ نمٹ رہے ہیں لیکن متمول جی 7ممالک بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔امریکہ میں تو ایک ہی دن میں 2000 سے بھی زیادہ اموات ہوئی ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب چین سے کوئی مہلک وائرس اُٹھا ہو اور نہ ہی چین کا چیزوں پر پردہ ڈالنا ہی کوئی نئی بات ہے۔ البتہ چین کا دیدہ دلیری کے ساتھ کسی بھی ذمہ داری سے انکار کرکے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کو اسے اچھا کرنے کی سند دینے کیلئے ’’قائل‘‘ کرنا نیا ضرور ہے۔ لہٰذا ،جہاں چین نے ٹِک ٹِک کرنے والے کووِڈ19-بم کو چھپایا، وہیں بے خبر دُنیا اپنی دھن میں مست رہی یہاں تک کہ ایک صبح کو انہیں اچانک پتہ چلا کہ وبا نے اسکے شہروں اور قصبوں میں دراندازی کردی ہے۔
اپنی حفاظت سے بے پرواہ پائی گئی دُنیا ابھی بے حس و حرکت وائرس کے ہاتھوں خود کو تباہ ہوتے دیکھ رہی ہے۔ چین میں دوا،بشمولِ حساس دوائیات و متعلقہ مصنوعات بنانے والی فیکٹریوں کی حماقت مغربی دُنیا پر کی سمجھ میں آنے لگی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی ادراک ہونے لگا کہ وہ ادویات کی درآمد (جس کی بھاری کھیپ چین برآمد کرتا ہے) کیلئے اپنی ضروریات کے 95 فیصد تک دوسروں پر منحصر ہیں۔نتیجہ یہ کہ وہ نہ صرف ابھی چہرے کے ماسکس ،دستانوں اور وینٹی لیٹرس کی قلت کے مسئلے سے دوچار ہیں بلکہ پیرسٹمول جیسی بنیادی چیزوں کیلئے بھی پریشان ہیں۔
اب جبکہ یہ ممالک وبا کے گھیراؤ میں آگئے ہیں انہوں نے سینکڑوں کروڑوں ڈالر کے طبی سامان کا آرڈر دیا ہے لیکن وہ دیکھ جان کر ششدر ہوئی ہیں کہ کئی بد دیانت چینی کمپنیاں انہیں غیر معیاری یا ناقص ٹیسٹنگ کِٹ، دستانے اور دیگر متعلقہ سامان تھماتے وقت ہچکچا بھی نہیں رہی ہیں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے 4مارچ کو دھمکی آمیز انداز میں یوں اشارہ دیا ’’امریکہ میں استعمال ہونے والے بیشتر چہرے کے ماسک چین میں بنائے جاتے ہیں۔اگر چین نے سفر اور طبی سامان کی برآمدگی پر پابندی لگاکر امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کی تو امریکہ نئے نمونیا کی وبا سے جہنم میں تبدیل ہوجائے گا۔ امریکہ پر چین سے معافی اور دُنیا پر شکریہ کا قرض ہے‘‘۔
تو آج کی زمینی صورتحال کیا ہے؟ انسانی آبادی کی بے ہنگم تعداد کے علاوہ دُنیا بھر کے ممالک کساد بازاری کی گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ گلوبل سپلائی چین درہم برہم ہوچکی ہے، فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے (وسط مارچ سے ابھی تک امریکہ میں 22ملین لوگوں کی نوکریاں جا چکی ہیں) اور اشیائے ضروریہ تک کی قلت تک معمول بن گئی ہے۔ آرگنائزیشن فار اکونومک کوپریشن اینڈ ڈیولوپمنٹ (او ای سی ڈی) کے چیف اکونومسٹ کا مشاہدہ ہے کہ او ای سی ڈی سے منسلک ممالک میں پیداواری سطح 25 سے 30 فیصد تک گر گئی ہے۔
خام تیل کی قیمتوں میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی ہے (بھارت کو اس پر شکایت نہیں ہے!) اور اندازہ ہے کہ 1.57بلین طلباٗ اور اسکالروں کی تعلیمی ترقی رک گئی ہے۔ تواضع، سیاحت، ہوا بازی اور تعمیراتی شعبہ بُری طرح متاثر ہوگیا ہے۔ ان سبھی شعبہ جات کی بحالی نہ فوری ہوگی اور نہ ہی آسان۔
انٹر نیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا اندازہ ہے کہ عالمی معیشت امسال 3 فیصد سکڑ جائے گی جو 1930 کی عظیم سُست روی کے بعد سب سے بدترین ہے۔اس سب سے اگلے دو سال میں 87 ٹرلین ڈالر کی عالمی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 9 ٹرلین ڈالر کی کمی ہوسکتی ہے۔ چین کی معشیت (1976 سے سب سے کم) فقط 1.2 فیصد اور بھارتی معشیت 1,5 فیصد کے لگ بھگ وسیع ہوسکتی ہے۔
وبا جتنی طویل ہوگی اسکا نقصان اتنا ہی زیادہ ہوگا اور کم از کم بحران کے ٹل جانے تک دُنیا کے ’’نئے معمول‘‘کو سمجھنا مشکل ہے۔ حتیٰ کہ تب یہ وبا بھی کچھ دیر کیلئے جنگل کی آگ کی طرح سُلگتی اور بھڑکتی رہے گی۔اس سب سے طرزِ زندگی،کاروبار،تعلقات اور اقتدار کی حرکیات نمایاں طور بدل جائے گی ۔ چھوٹی سطح (مائیکرو لیول) پر دیکھیں تو گھر بیٹھے کام کرنا (ورک فرام ہوم) اور ہاتھوں کی حفظانِ صحت (صفائی) تہذیب بن جائے گی اور اسی طرح چہرے کے ماسک پہننا،گفتگو کرنے والی ڈیجیٹل سائٹس اور ای کامرس یعنی انٹرنیٹ کے ذریعہ خریداری کی جیسی چیزیں عادت بن جائیں گی۔ (ڈیجیٹل) ڈیٹا کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوجائے گا۔
میکرو لیول پر تبدیلی کچھ زیادہ ہی دور رس ہوسکتی ہیں۔ ممالک بیرون دیکھنے کی بجائے اندرون سطح پر دیکھنے کی عادی ہوجائیں گی اور مینوفیکچرنگ، باالخصوص حساس اور ضروری مصنوعات کی، درونِ خانہ ہوگی، تحفظاتی دیواریں مزید بلند ہوجائینگی، بین الاقوامی بیوپار اور سرمایہ کاری کم ہوجائے گی اور سرکاریں مزید جارح ہوجائینگی۔
انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل فائنانس (آئی آئی ایف) کے مطابق اُبھرتے ہوئے بازاروں میں سے پہلے ہی تقریباََ 100بلین ڈالر کی سرمایہ کاری چلی گئی ہے جو 2008 کے عالمی اقتصادی بحران کے دوران خارج شدہ سرمایہ کا تین گنا ہے۔ جاپان نے اپنے مینوفیکچرروں کو اپنی پیداوار کو چین سے جاپان یا تیسرے ممالک کو منتقل کرنے کیلئے پہلے ہی 2.2بلین امریکی ڈالر کی رقم مختص کردی ہے۔
ممالک کے باہمی تعلقات اور طاقت کی مساوات کا سرِ نو جائزہ ہوگا ۔مختلف علاقوں میں امریکی قیادت والے سلامتی کے ڈھانچہ پر بہت زیادہ اعتماد نہیں رہے گا لیکن چین کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ فی الواقع چین سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ملک کے بطور سامنے آسکتا ہے۔ چینی طلباٗ،سائنسدان اور کاروباری بڑے پیمانے پر سرکاری نگرانی کے تحت آئیں گے۔ متبادلات کی طلب کے واسطے، کم از کم مختصر مختصر مدت کیلئے ،ہتھیاروں کی ایک دوڑ لگ سکتی ہے جس سے عدمِ استحکام اور تناوٗ بڑھ سکتا ہے۔
گورننس کے عالمی اداروں،بشمولِ اقوامِ متحدہ (یو این)،اقوامی متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) اور ڈبلیو ایچ او، کی ضرورت کے باوجود انہیں غیر موٗثر اور جانبدار پایا گیا ہے۔ وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جئے شنکر نے امسال کے اوائل میں میونچ سکیورٹی کانفرنس کے دوران کہا تھا ’’اقوامِ متحدہ اپنی تاریخ کے برعکس ابھی کہیں کم معتبر ہے‘‘ ۔اسکی دو بڑی وجوہات ہیں ،ایک یہ کہ ان اداروں کے پاس اپنے فیصلوں کو نافذ کروانے کا دم خم نہیں ہے اور یہ یو این ایس سی کے پانچ مستقل ممبران پر منحصر ہیں جو خود نا امیدی کے ساتھ بٹے ہوئے ہیں۔
دوسری وجہ یہ کہ چین کی ان ممبران پر پکڑ کئی حد تک بڑھ گئی ہے ،اسکی غیر متناسب مالی حصہ داری جو امریکہ کے مقابلے میں کم ہے۔ سال 2018-19میں ڈبلیو ایچ او کے تئیں چین اور امریکہ کی (مالی) حصہ داری باالترتیب 86 اور 893 ملین ڈالر تھی۔ بیجنگ اسکی بجائے دوست نمائندگان کو اہم عہدوں کیلئے منتخب کرواکے انہیں منظم طریقے پر استعمال کرنے پر زیادہ توجہ کرتا ہے ۔ ڈبلیو ایچ او کے موجودہ سربراہ بھی چین کے ہی نامزد کردہ ہیں۔ اس طرح یہ ادارے مزید پسماندگی کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ انکی اصلاح میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
اور باالآخر بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت کا اس سب میں کیا کردار ہوگا؟ ابھی تک کے اشارے مثبت ہیں۔ امید ہے کہ ہم (کرونا وائرس کے ) کمیونٹی اسپریڈ کو ٹالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ہم ابھی وبائی صورتحال سے جھوج ہی رہے ہیں، سرکار معیشت کو اُ چھال بخشنے پر غور کر رہی ہے۔اس سے زیادہ موزوں وقت نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی توقعقت کا وسیع احساس ہے۔ ’’میک اِن اِنڈیا 2.0-‘‘ کی پہل میں آسان شرائط پر قرضہ، جی ایس ٹی کی نرخوں میں تخفیف،زمینی اور مزدور اصلاحات، ٹرانسپورٹ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے اور آسانیاں پیدا کرنےکی معیاد بند آن لائن منظوری شامل ہوسکتی ہے۔کووِڈ 19-اگر ایک بے مثال چلینج ہے تو یہ ایک موقعہ بھی ہے۔ امید ہے کہ ان دونوں سمتوں میں کامیاب ہونے کیلئے اپنے پاوٌں مظبوط کر پائیں گے۔