گجرات کے شہر ورم گام میں 'البدر پراتھمک شالا' نامی اسکول میں تالا لگنے کی وجہ سے طلبا کھلے میدان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
در اصل گجرات میں سنہ 2002 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد گجرات کے شہر ورم گام میں بھی بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے تھے۔
ان فساد متاثرین کو امداد پہنچانے کی غرض نے سماجی تنظیم 'اسلامک ریلیف کمیٹی' نے 187 مکانات تعمیر کرانے کے ساتھ ایک اسکول کی بھی تعمیر کرائی تھی۔
سنہ 2004 میں 'اقرا پراتھمک شالا' نام سے درجہ اول سے چھٹی جماعت تک کے لیے اسکول کی شروعات کی گئی، لیکن بعد میں کمیٹی نے اسکول کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
بعد ازاں حکومت کی جانب سے سنہ 2012 میں اس اسکول کو 2 برسوں تک کے لیے کرایہ پر لے لیا گیا، اور اس دوران دوسرے اسکول کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی گئی، لیکن کمیٹی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے نہ تو کمیٹی کو اسکول کا کرایہ دیا گیا اور نہ ہی دوسرا اسکول تعمیر کیا گیا۔
تقریبا 7 برسوں کے بعد محکمہ تعلیم کی غیر ذمہ دارانہ رویہ سے ناراض ہو کر کمیٹی نے اسکول میں تالا لگا دیا، جس کا خمیازہ بچوں کا بھگتنا پڑ رہا ہے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ اسکول بند ہونے سے انہیں کھلے میدان میں پڑھائی کرنی پڑ رہی ہے جس سے ان کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔
بڑی تعداد میں فساد سے متاثر طلبا کے والدین جن کے پاس پرائیویٹ اسکولز میں بچوں کو پڑھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں انہیں اسکول بند ہونے سے کافی مایوسی ہوئی ہے۔
البدر پراتھمک شالا کمیٹی کے چیئرمین گھانچی علی محمد نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے ضلع کے تعلیمی افسر سے بات کی ہے، لیکن سب کچھ بے نتیجہ ثابت ہوا۔
کمیٹی کے سیکریٹری محمد عمر وہرا نے محکمہ تعلیم پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تعداد میں مسلم طلبا ہونے کی وجہ سے مطالبات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
جب ای ٹی وی کی نمائندے نے اس سلسلے میں ورم گام کے تعلیم افسر سے بات کرنے کے لیے فون کیا تو ان کا فون رسیو نہیں ہو سکا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا خمیازہ بچوں کو کب تک بھگتنا پڑے گا اور کب تک ان کی تعلیم متاثر ہوتی رہے گی۔
احمد آباد سے ای ٹی وی بھارت کے لیے روشن آرا کی رپورٹ