میرٹھ کے کاشی رام کالونی میں رہنے والی 9 برس کی بچی کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا جس سے نہ صرف میرٹھ بلکہ پورا ملک ایک بار پھر دہل گیا۔
یہ معاملہ تھانہ کھرکھودا کے کاشی رام کالونی کا جہاں 4 جون، چاند رات کو نو برس کی تیسری کلاس میں پڑھنے والی بچی رات 9 بجے کے قریب کرانہ اسٹور سے چاول لینے گئی تھی کافی دیر کے بعد جب وہ گھر واپس نہیں آئی تو اہل خانہ نے تلاش کرنے کے بعد پولیس میں تحریری شکایت دی تھی۔
آج چوتھے دن ایس ایس پی نتن تیواری نے معاملے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ بچی کے برابر میں رہنے والے شاداب نامی شخص کی اس بچی پر بری نظر تھی ٹافی دینے کے بہانے وہ بچی کو بہلا پھسلا کر جھاڑیوں میں لے گیا اور بدنیتی کرنے پر جب بچی نے اسے روکنے کی کوشش کی تو بے رحمی سے اس کا قتل کردیا اور وہاں سے 12 کلو میٹر دور نالے میں لے جا کر لاش کو ڈال دیا۔
ایس ایس پی نتن تواری نے بتایا کہ جس سے بچی کو لے جایا گیا وہ موٹر سائیکل، قتل کی جانے والی چادر اور جہاں سے ٹافی لی گئی اس دکان کو ثبوت کے طور پرکیس میں شامل کیا گیا ہے۔
شاداب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جبکہ لڑکی کے بڑے والد کا کہنا ہے کہ ہم پولیس کی کاروائی سے بالکل مطمئین نہیں ہیں، کیوں کہ کوئی بھی ثبوت ہمیں نہیں دکھایا گیا جس سے ہم یقین کریں کہ ہماری بچی کو کس نے قتل کیا۔
گھر سے ساڑھے آٹھ کلومیٹر دور بچی کی لاش کو پھینکا گیا اتنے لمبے راستے میں متعدد سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں بچی کے ہاتھ میں چاول تھے وہ کہاں گئے جو دوپٹہ تھا اس کا پتہ نہیں۔
جس بلڈنگ میں شاداب رہتا تھا اس بلڈنگ کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ برسوں سے شاداب یہاں رہا ہے لیکن اس طرح کے حرکت سامنے نہیں آئی ہیں عید والے دن بھی وہ چاومین کا ٹھیلا لگائے ہوئے تھا۔
بچی کی مامی فرح کا کہنا ہے کہ چاند رات کو جب وہ پولیس تھانہ میں تحریر دینے گئیں تو پولیس اہلکار نے ان سے رشوت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک اس کا انتظام نہیں ہو گا کاروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وقت رہتے تحقیقات کی ہوتی تو شاید ان کی بچی کی جان بچ جاتی۔ دو دن تک بچی کو کمرے میں بند رکھا گیا ان کا ماننا ہے کہ ایک دن پہلے ہی بچی کو قتل کیا گیا تھا۔
بچی کے تایا کا کہنا ہے کہ ہم غریب ہیں اس لیے ہماری سننے والا کوئی نہیں ہم اب خود ہی اس وقت تک قانونی لڑائی لڑیں گے جب تک اصل ملزم کو گرفتار کرکے پھانسی کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔
میرٹھ سے ای ٹی وی بھارت کے لیے خورشید احمد کی رپورٹ