قومی نظموں کے لیے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست کے آباؤاجداد کشمیری پنڈت تھے۔ پندرہ ویں صدی میں کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے وطن کو خیرآباد کہہ کر پنجاب، دہلی، یوپی، بہار اور کولکاتا میں نقل مکانی کی تھی۔
چکبست لکھنوی کے آباؤاجداد بھی انھیں میں سے ایک تھے۔ شجاع الدولہ کے عہد میں کچھ کشمیری پنڈت اترپردیش کے فیض آباد کے اطراف میں آباد ہوگئے تھے۔ چکبست کا خاندان بھی انہیں میں سے ایک تھا۔
چکبست کی پیدائش ان کے آبائی مکان فیض آباد میں 19 جنوری 1882 کو ہوئی۔ ان کے والد پنڈت اودت نرائن چکبست اسی برس ملازمت کے سلسلے میں پٹنہ چلے گئے اور ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت اختیار کی۔
چکبست کے ایک بڑے بھائی مہاراج نرائن چکبست تھے۔ 1887 میں والد اودت نرائن کی موت کے وقت چکبست کی عمر پانچ سے چھ برس کی تھی۔
لہٰذا ان کے ماموں پنڈت للتا پرشاد بھٹ پوری جو لکھنؤ میں ملازم تھے، نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی اور دونوں بھائی اور ماں لکھنؤ چلے آئے جہاں ماموں کے سایۂ عاطفت میں دونوں پروان چڑھے۔
بڑے بھائی مہاراج نرائن نے 1897 میں ملازمت اختیار کر لی، اور ترقی کر کے میونسپلٹی کے اگزکیوٹیو افسر ہوئے۔ ان کی ترقی سے خاندان میں آسودگی ہوگئی۔
سنہ 1890 میں چکبست کو اردو فارسی کی تعلیم دینے کی غرض سے ایک مولوی کا تقرر ہوا۔ سنہ 1895 میں کاظمین اسکول لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ جو اس وقت صرف مڈل اسکول تھا۔
سنہ 1898 میں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور سنہ 1900 میں دسویں جماعت پاس کرکے کیننگ کالج پہنچے جہاں انھوں نے 1902 میں ایف اے پاس کیا۔
سنہ 1905 میں بی اے کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔ 1907 میں ایل ایل بی پاس کرکے اسی برس وکالت شروع کردی۔
اس طرح ان کی ابتدائی زندگی تعلیم کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ ازدواجی زندگی سے وہ 1905 میں منسلک ہوئے، لیکن ایک سال ہی میں بچے کی ولادت کے موقع پر بیوی کا انتقال ہوگیا۔ چند دنوں بعد وہ لڑکا بھی فوت ہوگیا۔
دوسری شادی 1907 میں پنڈت سورج ناتھ آغا کی بیٹی کھمبا دیوی سے ہوئی۔ جن سے کئی اولادیں پیدا ہوئیں، لیکن صرف ایک لڑکی مہاراج دلاری زندہ رہی۔
شاید اس طرح کے نامساعد حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہی چکبست نے یہ مشہور زمانہ شعر کہا تھا۔۔۔۔ ملاحظہ کریں
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
اردو شاعری کے باب میں پنڈت برج نرائن چکبست کا شمار نشاۃالثانیہ کے قابل ذکر شعرا میں ہوتا ہے۔ عددی اعتبار سے ان کا شعری مجموعہ اگر چہ کم ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار کسی کو نہیں ہے۔
چکبست نے قوم پرستی اور حب الوطنی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انسان کی کامیابی و کامرانی کا راز وطن کی ترقی میں مضمر ہے۔
چکبست کو بنیادی طور پر نظم کا شاعر شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن انھوں نے غزلیں، مرثیے اور رباعیات بھی کہی ہیں۔ ان کی نظموں کی معنویت آج کے دور میں بھی صادق آتی ہے۔ جس طرح ملک میں مظاہروں کا دور چل رہا ہے ایسے میں چکبست کی یہ نظم 'حب قومی' صادق آ سکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔
حب قومی کا زباں پر ان دنوں افسانہ ہے
بادۂ الفت سے پر دل کا مرے پیمانہ ہے
جس جگہ دیکھو محبت کا وہاں افسانہ ہے
عشق میں اپنے وطن کے ہر بشر دیوانہ ہے
جب کہ یہ آغاز ہے انجام کا کیا پوچھنا
بادۂ الفت کا یہ تو پہلا ہی پیمانہ ہے
ہے جو روشن بزم میں قومی ترقی کا چراغ
دل فدا ہر اک کا اس پر صورت پروانہ ہے
مجھ سے اس ہمدردی و الفت کا کیا ہووے بیاں
جو ہے وہ قومی ترقی کے لیے دیوانہ ہے
لطف یکتائی میں جو ہے وہ دوئی میں ہے کہاں
بر خلاف اس کے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے
نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمت مردانہ ہے
ہے گل مقصود سے پر گلشن کشمیر آج
دشمنی نااتفاقی سبزۂ بیگانہ ہے
در فشاں ہے ہر زباں حب وطن کے وصف میں
جوش زن ہر سمت بحر ہمت مردانہ ہے
یہ محبت کی فضا قائم ہوئی ہے آپ سے
آپ کا لازم تہ دل سے ہمیں شکرانہ ہے
ہر بشر کو ہے بھروسا آپ کی امداد پر
آپ کی ہمدردیوں کا دور دور افسانہ ہے
جمع ہیں قومی ترقی کے لیے ارباب قوم
رشک فردوس ان کے قدموں سے یہ شادی خانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
چکبست نے غزلوں اور نظموں میں جس طرح کے موضوعات منتخب کیے ان کا بیشتر تعلق سماج اور سیاست سے رہا ہے۔
ان کی شاعری کے متعلق بعض ادبا کی رائے ہے کہ حالی اور آزاد کی اصلاحی کوششوں کا رنگ ان کی شاعری میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔
چکبست کے کچھ مشہور اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
*****
خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا
*****
عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
*****
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
*****
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
*****
چکبست کا مکمل کلام 'صبح وطن' میں شامل ہے۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں نظمیں، غزلیں، قطعات، رباعیات، مرثیے اور کچھ متفرق کلام موجود ہیں۔
نظموں کی تعداد زیادہ ہے جو مخمس اور مسدس دونوں میں ہیں۔ کالیداس رضا نے چکبست کی چھ رباعیاں مزید تلاش کرکے ان کی تعداد 10 کردی ہے۔
ان کے ایک قطعہ کا یہ حصہ اخیر میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
کبھی تھا ناز زمانے کو اپنے ہند پہ بھی
پر اب عروج وہ علم و کمال و فن میں نہیں
وہی ہیں گُل وہی بلبل وہی نسیم و صبا
وہی چمن ہے پہ وہ باغباں چمن میں نہیں
رگوں میں خوں ہے وہی دل وہی جگر وہی
وہی زباں ہے مگر وہ اثر سخن میں نہیں
نفاق و جہل نے ہندوستاں کو لوٹ لیا
بجز نفاق کے اب خاک بھی وطن میں نہیں