ETV Bharat / bharat

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار

مولانا عبدالباری کے نواسے عدنان فرنگی محلی نے بتایا کہ گاندھی جی لکھنؤ میں 3 بار آئے اور ہر بار وہ فرنگی محل میں ہی ٹھہرے۔

author img

By

Published : Aug 14, 2019, 10:35 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 1:09 AM IST

متعلقہ تصویر

نوابی شہر لکھنؤ سے مہاتما گاندھی کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ گاندھی جی جب بھی لکھنؤ آتے تو وہ فرنگی محل میں قیام کرتے تھے۔

فرنگی محل سے مجاہدین آزادی کا ایک خصوصی رشتہ رہا ہے۔ اس لحاظ سے فرنگی محل تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار

ملک میں آج مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جا رہا ہے لیکن در حقیقت لاکھوں مسلمانوں نے جنگ آزادی کے دوران اپنی جانوں قربانیاں پیش کی تھی۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران مفتی ابوالعرفان فرنگی محلی نے کہا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادہ عبدالباری ندوی کی گاندھی جی سے اچھی دوستی تھی۔

عظیم علمائے دین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا اور ہر طرح سے انگریزوں سے جنگ کر کے قربانیاں پیش کیں۔ جس کے بدلے انہوں نے کبھی بھی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

مولانا عبدالباری کے نواسے عدنان فرنگی محلی نے بتایا کہ گاندھی جی لکھنؤ میں 3 بار آئے اور ہر بار وہ فرنگی محل میں ہی ٹھہرے۔

گاندھی جی فرنگی محل میں جب بھی قیام کرتے، ان کے لیے ایک برہمن خانساماں ہوتا تھا جو سادہ کھانا پکاتا تھا۔ گاندھی جی جتنے وقت کے لیے یہاں قیام کرتے، فرنگی محل میں گوشت کا کوئی بھی کھانا نہیں پکایا جاتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنی اہلیہ کے ساتھ فرنگی محل آئے تھے اور ساتھ میں دوسرے رشتے دار بھی تھے۔

بیگم شہناز سدرۃ نے بتایا کہ ان کے سسر حیات اللہ انصاری جو کہ قومی آواز کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنے ساتھ ایک بکری فرنگی محل میں لیکر آئے ہوئے تھے۔

لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق فرنگی محل کے چھوٹے بچوں نے گاندھی جی کی بکری کو پان کی گیلاوری کھانے کو دیا، لیکن اس بکری نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس پر بچوں نے کہا کہ گاندھی جی تو بہت ہی سیدھے سادے ہیں، لیکن انکی بکری کا اخلاق بہتر نہیں ہے۔

اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ گاندھی جی کا لکھنؤ سے گہرا تعلق تھا اور اس کے علاوہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔

نوابی شہر لکھنؤ سے مہاتما گاندھی کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ گاندھی جی جب بھی لکھنؤ آتے تو وہ فرنگی محل میں قیام کرتے تھے۔

فرنگی محل سے مجاہدین آزادی کا ایک خصوصی رشتہ رہا ہے۔ اس لحاظ سے فرنگی محل تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار

ملک میں آج مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جا رہا ہے لیکن در حقیقت لاکھوں مسلمانوں نے جنگ آزادی کے دوران اپنی جانوں قربانیاں پیش کی تھی۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران مفتی ابوالعرفان فرنگی محلی نے کہا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادہ عبدالباری ندوی کی گاندھی جی سے اچھی دوستی تھی۔

عظیم علمائے دین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا اور ہر طرح سے انگریزوں سے جنگ کر کے قربانیاں پیش کیں۔ جس کے بدلے انہوں نے کبھی بھی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

مولانا عبدالباری کے نواسے عدنان فرنگی محلی نے بتایا کہ گاندھی جی لکھنؤ میں 3 بار آئے اور ہر بار وہ فرنگی محل میں ہی ٹھہرے۔

گاندھی جی فرنگی محل میں جب بھی قیام کرتے، ان کے لیے ایک برہمن خانساماں ہوتا تھا جو سادہ کھانا پکاتا تھا۔ گاندھی جی جتنے وقت کے لیے یہاں قیام کرتے، فرنگی محل میں گوشت کا کوئی بھی کھانا نہیں پکایا جاتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنی اہلیہ کے ساتھ فرنگی محل آئے تھے اور ساتھ میں دوسرے رشتے دار بھی تھے۔

بیگم شہناز سدرۃ نے بتایا کہ ان کے سسر حیات اللہ انصاری جو کہ قومی آواز کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنے ساتھ ایک بکری فرنگی محل میں لیکر آئے ہوئے تھے۔

لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق فرنگی محل کے چھوٹے بچوں نے گاندھی جی کی بکری کو پان کی گیلاوری کھانے کو دیا، لیکن اس بکری نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس پر بچوں نے کہا کہ گاندھی جی تو بہت ہی سیدھے سادے ہیں، لیکن انکی بکری کا اخلاق بہتر نہیں ہے۔

اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ گاندھی جی کا لکھنؤ سے گہرا تعلق تھا اور اس کے علاوہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔

Intro:نوابی شہر لکھنؤ اور گاندھی کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ گاندھی جی جب بھی لکھنؤ آتے تو وہ فرنگی محل میں قیام کرتے تھے۔

فرنگی محل اور آزادی کے دیوانوں کا خاص رشتہ رہا ہے، جو آج بھی اپنی تاریخی حیثیت کا حامل بنا ہوا ہے۔


Body:ملک میں آج تمام لوگ بھلے ہی مسلمانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ مانگ رہے ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں نے جنگ آزادی میں لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھی۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت خصوصی بات چیت کے دوران مفتی ابوالعرفان صاحب نے کہا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا بڑا ہی نمایاں کردار تھا۔

انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل میں مولانہ عبدالباری صاحب جو کہ ہمارے پردادا تھے، ان کی دوستی گاندھی جی سے تھی۔ مولانا حسرت موہانی ان کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔ لہٰذا بڑے بڑے عالم دین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا اور ہر طرح سے انگریزوں سے جنگ کر کے اپنی قربانیاں پیش کی۔ اس کے بدلے میں انہوں نے کبھی بھی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

مولانا عبدالباری کے نواسے عدنان فرنگی محل نے کہا کہ گاندھی جی لکھنؤ میں تین مرتبہ آئے اور ہر بار وہ فرنگی محل میں ٹھہرے تھے۔

گاندھی جی فرنگی محل میں جب قیام کرتے تھے، تو ان کے لیے ایک برہمن خانساماں ہوتا تھا جو سادہ کھانا بناتا تھا۔ گاندھی جی جتنے وقت کے لئے یہاں قیام کرتے، فرنگی محل میں گوشت کا کوئی بھی کھانا نہیں بنتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنی اہلیا کے ساتھ فرنگی محل آئے تھے اور ساتھ میں دوسرے رشتے دار بھی تھے۔

بیگم شہناز سدرۃ نے خصوصی طور پر بتایا کہ میرے سسر حیات اللہ جو کہ قومی آواز کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اپنے سنن حیات میں ذکر کیا ہے کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنے ساتھ ایک بکری فرنگی محل میں لیکر آئے ہوئے تھے۔

لکھنؤ کی تہذیبی و روایات کے مطابق فرنگی محل کے چھوٹے بچوں نے گاندھی جی کی بکری کو پان کی گیلاوری کھانے کو دیا، لیکن اس بکری نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس پر بچوں نے کہا کہ گاندھی جی تو بہت ہی سیدھے سادے ہیں، لیکن انکی بکری اچھی نہیں ہے۔




Conclusion:اس طرح سے دیکھا جائے تو گاندھی جی کا لکھنؤ سے گہرا تعلق تھا۔ اس کے علاوہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا بڑا ہی نمایاں کردار رہا ہے۔
Last Updated : Sep 27, 2019, 1:09 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.