نوابی شہر لکھنؤ سے مہاتما گاندھی کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ گاندھی جی جب بھی لکھنؤ آتے تو وہ فرنگی محل میں قیام کرتے تھے۔
فرنگی محل سے مجاہدین آزادی کا ایک خصوصی رشتہ رہا ہے۔ اس لحاظ سے فرنگی محل تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
ملک میں آج مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جا رہا ہے لیکن در حقیقت لاکھوں مسلمانوں نے جنگ آزادی کے دوران اپنی جانوں قربانیاں پیش کی تھی۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران مفتی ابوالعرفان فرنگی محلی نے کہا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادہ عبدالباری ندوی کی گاندھی جی سے اچھی دوستی تھی۔
عظیم علمائے دین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی جاری کیا اور ہر طرح سے انگریزوں سے جنگ کر کے قربانیاں پیش کیں۔ جس کے بدلے انہوں نے کبھی بھی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
مولانا عبدالباری کے نواسے عدنان فرنگی محلی نے بتایا کہ گاندھی جی لکھنؤ میں 3 بار آئے اور ہر بار وہ فرنگی محل میں ہی ٹھہرے۔
گاندھی جی فرنگی محل میں جب بھی قیام کرتے، ان کے لیے ایک برہمن خانساماں ہوتا تھا جو سادہ کھانا پکاتا تھا۔ گاندھی جی جتنے وقت کے لیے یہاں قیام کرتے، فرنگی محل میں گوشت کا کوئی بھی کھانا نہیں پکایا جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنی اہلیہ کے ساتھ فرنگی محل آئے تھے اور ساتھ میں دوسرے رشتے دار بھی تھے۔
بیگم شہناز سدرۃ نے بتایا کہ ان کے سسر حیات اللہ انصاری جو کہ قومی آواز کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ گاندھی جی اپنے ساتھ ایک بکری فرنگی محل میں لیکر آئے ہوئے تھے۔
لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق فرنگی محل کے چھوٹے بچوں نے گاندھی جی کی بکری کو پان کی گیلاوری کھانے کو دیا، لیکن اس بکری نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس پر بچوں نے کہا کہ گاندھی جی تو بہت ہی سیدھے سادے ہیں، لیکن انکی بکری کا اخلاق بہتر نہیں ہے۔
اس طرح یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ گاندھی جی کا لکھنؤ سے گہرا تعلق تھا اور اس کے علاوہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔