اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے اور عظیم شاعر کہے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب کا آج یوم پیدائش ہے۔ جہاں اٹھارویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 میں عبداللہ بیگ کے یہاں ہوتی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصراللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔
13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ برابر قرض میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ چچا کی وفات کے بعد نواب احمد الہی بخش خاں نے غالب کے خاندان کا وظیفہ انگریزی حکومت سے مقرر کرا دیا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ زیادہ دن نہ مل سکا۔ جس کے لیے غالب نے 1827 میں کلکتہ کا سفر بھی کیا۔ اس دوران وہ لکھنؤ اور بنارس میں چند ماہ رکے بھی۔
مولانا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 'ظاہرا مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتے کے سوا نہیں کیا۔ اسی سفر کی آمدو رفت میں وہ چند ماہ لکھنؤ اور بنارس میں بھی ٹھہرے تھے'۔
پینشن کے لیے کیا گیا کلکتہ کا سفر کامیاب ثابت نہ ہوا، غالب کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد مرزا نے ولایت میں اپیل کی، مگر وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔
عمر کے آخری ایام میں غالب کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد غالب نے قلعہ معلیٰ میں مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرلی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے۔ اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا جس کا 50 روپیے ماہوار مقرر کیا گیا۔
غالب نے اپنی نظروں کے سامنے دہلی کو اجڑتے ہوئے دیکھا تھا، 1857 کی جنگ کے حالات غالب نے اپنی ڈائری 'دستنبو' میں درج کیے۔
اردو کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 میں اس دنیا کو پرانی دہلی کی گلی قاسم جان، محلہ بلی ماراں میں خیرآباد کہہ دیتا ہے۔
غالب نے اردو غزل کو حیات دوام بخشا ہے۔ جب تک اردو زندہ ہے غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔
عبدالرحمن بجنوری نے غالب کی شاعری کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'ہند وستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، 'وید مقدس' اور 'دیوان غالب'۔
غالب کے حوالے سے عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ 'غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے'۔
ان کا مشہور شعر ہے جو عام سادہ زبان میں ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالب نے قدیم شاعری کی روایت کو توڑنے کا کام کیا ہے۔ جہاں ان سے قبل غزل صرف محبوب کے گیسو و عارض میں الجھی تھی، غالب نے اس کے مضامین میں وسعت بخشی۔ فلسفہ، طنز و مزاح، صوفیانہ رنگ، زندگی کے حقیقی مجازی پہلو اور پیکر تراشی، غرض کئی طرح کے مضامین سے اردو شاعری کو جلا بخشی۔
غالب کے کچھ مشہور اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
غالب کے اشعار میں جو گہرے معنی و مفاہیم ملتے ہیں ان پر تفصیلی گفتگو ممکن نہیں۔ جس کو جو معنی ملتے گئے وہ ان کو بیان کرتا گیا۔ جب تک اردو زبان و شاعری زندہ ہے تب تک غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔