ETV Bharat / bharat

'پرشانت بھوشن نے اپنے علم و جرأت سے ملک کے جمہوری اقدار کو مضبوط کیا'

مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ عدالتوں کی بے راہ روی پر کتابیں آچکی ہیں اور عدالتوں کے غیر جانبدارانہ رویہ پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عدالتوں کے جانبدارانہ رویہ پر خوب تبصرے ہوئے ہیں، خود بابری مسجد کیس میں جو فیصلہ سپریم کورٹ کا آیا ہے وہ عدالتی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔

Maulana Wali Rahmani
امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی
author img

By

Published : Aug 24, 2020, 10:15 PM IST

امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ مشہور اور قابل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ کی کاروائیوں پر مثالوں کے ساتھ تبصرہ کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ازخود مقدمہ چلایا، یہ بات 2009 کی ہے۔

حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آن لائن شنوائی کررہا ہے اور غیرمعمولی اہمیت والے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، سپریم کورٹ نے گیارہ سال ٹھنڈے بستہ میں پڑے اس معاملہ کو بھی نمبر پر لے لیا اور جن مثالوں کے ساتھ انہوں نے سپریم کورٹ پر الزام لگائے تھے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن اور ڈاکٹر راجیو دھون کے اصرار کے باوجود کسی ایک مثال پر بھی بات نہیں ہوئی اور سماعت مکمل ہوگئی۔ ظاہر ہے ملزم کی پوری بات نہ سننا سپریم کورٹ کے وقار و اعتبار کے شایان شان نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کی بے راہ روی پر کتابیں آچکی ہیں اور عدالتوں کے غیر جانبدارانہ رویہ پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عدالتوں کے جانبدارانہ رویہ پر خوب تبصرے ہوئے ہیں، خود بابری مسجد کیس میں جو فیصلہ سپریم کورٹ کا آیا ہے وہ عدالتی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، عدالت نے مسلم فریق کی تمام بنیادی باتوں کو تسلیم کیا اور اس کو اپنے فیصلہ میں لکھا بھی لیکن اس کے بعد ججوں کی ذمہ داری تھی کہ ان حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سناتے لیکن اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ججوں نے فیصلہ کردیا اور بابری مسجد کی زمین ہندوفریق کودے دی۔

حضرت مولانامحمد ولی رحمانی صاحب نے یہ بات بھی کہی کہ یقیناً فیصلہ ہوگیا مگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جناب فیضان مصطفی صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ مسلم فریق سپریم کورٹ میں وقف کو ثابت نہیں کرسکا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، اگریہ بات ہوتی تو جج حضرات اپنے فیصلہ میں اس کا ذکر کرتے اور اپنے فیصلہ کی بنیاد اسی کو بناتے۔

امیرشریعت نے یہ بھی کہا کہ انہی جیسے معاملات کو پرشانت بھوشن نے اٹھایا اور سپریم کورٹ نے پوری بات سنے بغیر فیصلہ کا وقت دے دیا، اب جب فیصلہ کا نمبر آیا تو سپریم کورٹ میں تاریخیں بڑھادیں، جس سے پڑھے لکھے لوگوں نے یہ سمجھا کہ سپریم کورٹ کو اپنی غلطی کااحساس ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات یادرکھنے والی ہے کہ چیف جسٹس کے عہدہ پر رہتے ہوئے سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے بھی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے جو کچھ کہا اسے پورا ملک جانتا ہے، ان باتوں سے یہ فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری مل جائے، مگر فیصلوں کا معیار گرتا چلا جائیگا اور عدالتوں پر شبہات کے دائرے گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔

امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ مشہور اور قابل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ کی کاروائیوں پر مثالوں کے ساتھ تبصرہ کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ازخود مقدمہ چلایا، یہ بات 2009 کی ہے۔

حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آن لائن شنوائی کررہا ہے اور غیرمعمولی اہمیت والے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، سپریم کورٹ نے گیارہ سال ٹھنڈے بستہ میں پڑے اس معاملہ کو بھی نمبر پر لے لیا اور جن مثالوں کے ساتھ انہوں نے سپریم کورٹ پر الزام لگائے تھے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن اور ڈاکٹر راجیو دھون کے اصرار کے باوجود کسی ایک مثال پر بھی بات نہیں ہوئی اور سماعت مکمل ہوگئی۔ ظاہر ہے ملزم کی پوری بات نہ سننا سپریم کورٹ کے وقار و اعتبار کے شایان شان نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کی بے راہ روی پر کتابیں آچکی ہیں اور عدالتوں کے غیر جانبدارانہ رویہ پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عدالتوں کے جانبدارانہ رویہ پر خوب تبصرے ہوئے ہیں، خود بابری مسجد کیس میں جو فیصلہ سپریم کورٹ کا آیا ہے وہ عدالتی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، عدالت نے مسلم فریق کی تمام بنیادی باتوں کو تسلیم کیا اور اس کو اپنے فیصلہ میں لکھا بھی لیکن اس کے بعد ججوں کی ذمہ داری تھی کہ ان حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سناتے لیکن اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ججوں نے فیصلہ کردیا اور بابری مسجد کی زمین ہندوفریق کودے دی۔

حضرت مولانامحمد ولی رحمانی صاحب نے یہ بات بھی کہی کہ یقیناً فیصلہ ہوگیا مگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جناب فیضان مصطفی صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ مسلم فریق سپریم کورٹ میں وقف کو ثابت نہیں کرسکا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، اگریہ بات ہوتی تو جج حضرات اپنے فیصلہ میں اس کا ذکر کرتے اور اپنے فیصلہ کی بنیاد اسی کو بناتے۔

امیرشریعت نے یہ بھی کہا کہ انہی جیسے معاملات کو پرشانت بھوشن نے اٹھایا اور سپریم کورٹ نے پوری بات سنے بغیر فیصلہ کا وقت دے دیا، اب جب فیصلہ کا نمبر آیا تو سپریم کورٹ میں تاریخیں بڑھادیں، جس سے پڑھے لکھے لوگوں نے یہ سمجھا کہ سپریم کورٹ کو اپنی غلطی کااحساس ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات یادرکھنے والی ہے کہ چیف جسٹس کے عہدہ پر رہتے ہوئے سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے بھی چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی اور اس میں انہوں نے جو کچھ کہا اسے پورا ملک جانتا ہے، ان باتوں سے یہ فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری مل جائے، مگر فیصلوں کا معیار گرتا چلا جائیگا اور عدالتوں پر شبہات کے دائرے گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.