کیفی اعظمی کا شمار اردو کے ممتاز ترقی پسند شعرا اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے، آج ان کی 101 ویں سالگرہ ہے۔
گوگل نے بھی انہیں ڈوڈل کے ذریعے یاد کیا ہے۔
کیفی اعظمی کا اصلی نام سید اطہر حسین رضوی تھا اور 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک خوشحال زمیندار گھرانہ میں آنکھ کھولی۔
اپنے دور کے عظیم شاعروں میں سے ایک کیفی اعظمی نے محض گیارہ برس کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے، یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔
کیفی اعظمی کے والد چاہتے تھے کہ کیفی اعظمی اعلی تعلیم حاصل کرے اور اسی مقصد سے کیفی کا داخلہ لکھنٔو کے مشہور مدرسے سلطان المدارس میں کرادیا تھا۔
شعرو ادب سے دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ گھر میں علم وادب اور شعر وشاعری کا ماحول تھا۔
سنہ 1943 میں انہوں نے کمینسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کی اور انجمن ترقی پسند کے رُکن بھی بنے۔
کیفی اعظمی پارٹی کے اخبار قومی جنگ میں لکھنے کے لیے لکھنو چلے گئے، جہاں انہیں ایک شادی شدہ خاتون سے محبت ہوئی اور ان سے شادی کر لی۔
ممبئی آنے کے بعد کیفی اعظمی کو تقریباً 9 برس کی جد و جہد کے بعد بالی وڈ میں کام کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے فلموں میں بطور نغمہ نگار اور مصنف کام کرنا شروع کر دیا اور فلم بزدل میں پہلا نغمہ لیا گیا جس کے بول یوں ہے۔
دیوانے کرکے چھوڑ دے جو ایک زمانے کو
مجھ کو اُسی نگاہ نع انسان بنا دیا
انعام اب ملے کی سزا سر جُکھا دیا
بس اتنا جانتا ہوں مجھے تم سے پیار ہے
اور پیار میں نہ جیت کسی کی نہ ہار ہے
اس کے سُوا جو یاد تھا سب کچھ بُھلا دیا
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال، حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔ ان کے مجموعات کلام اس طرح ہیں۔
ان کی شاعری کی خوبصورت ادا یہ تھی کہ وہ جذبات ور احساسات کے گرد دیوار بنانے کے بجائے اسے لوگوں کے احساسات کے ساتھ جوڑ دیتے تھے اور ان کی شاعری سے نکلنے والے الفاظ ہر ایک کے دل میں اترتے تھے۔
کیفی اعظمی نے اردو ادب کو ہندی فلم انڈسٹری کا حصہ بنایا۔انہوں نے شعلہ اور شبنم، کہرا، نسیم، انوپما، اُس کی کہانی، پاکیزہ، ہنستے زخم، ارتھ، رضیہ سلطان، سات ہندوستانی اور باورچی جیسی فلموں کے گیت لکھے
انہوں نے بابری مسجد کے انہدام پر بھی ایک نظم لکھی ہے کہ جسے فلم نسیم میں لیا گیا۔
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
دھرم کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون
گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھرمیں آئے
شاکاہاری ہیں مرے دوست تمہارے خنجر
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے سارے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس
کیفی اعظمی پر کئی ایک دستاویزی فلمیں بھی تیار ہوئیں اس کے علاوہ انہیں کئی ایوارڈ بھی ملے جبکہ ان کی اہلیہ نے ایک کتاب میں اور کیفی اعظمی بھی لکھی، انہیں پدم شری کا خطاب بھی ملا اس کے علاوہ نیشنل فلم ایوارڈ سے بھی انہیں نوازا گیا۔
کیفی اعظمی 10مئی 2002ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔