ETV Bharat / bharat

بھارت نے امریکہ، طالبان معاہدے کا استقبال کیا - امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات

بھارت نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے امن معاہدے اور کابل میں افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے مشترکہ اعلان کا استقبال کیا۔

بھارت نے امریکہ، طالبان معاہدے کا استقبال کیا
بھارت نے امریکہ، طالبان معاہدے کا استقبال کیا
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 11:42 PM IST

Updated : Mar 3, 2020, 12:37 AM IST

اس کے ساتھ ہی کہا کہ بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن و سلامتی اور استحکام کے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے۔

ان مواقع میں افغانستان میں تشدد ختم ہونا، بین الاقوامی دہشت گردی کے ساتھ تعلقات ختم ہونا اور افغانستان کی قیادت، ملکیت اور کنٹرول میں ایک مستقل سیاسی معاہدہ ہونا شامل ہے'۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے
وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے

انہوں نے کہا کہ 'افغان حکومت، جمہوری نظام اور سول سوسائٹی سمیت پورے سیاسی نظام نے اس موقع کا خیر مقدم کیا ہے اور ان معاہدوں سے امن و استحکام کی امید کی جاتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ بھارت ایک قریبی پڑوسی ملک کے طور پر افغانستان میں قیام امن اور معاشرے کے سبھی طبقات کے مفادات کی حفاظت کرنے والے جمہوری اور خوشحال مستقبل کے لیے افغان حکومت اور لوگوں کو تمام طرح کی امداد جاری رکھے گا۔

خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے آج امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

بھارت نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے امن معاہدے اور کابل میں افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے مشترکہ اعلان کا استقبال کیا
بھارت نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے امن معاہدے اور کابل میں افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے مشترکہ اعلان کا استقبال کیا

امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوگئے، اور اس کا متن جاری کردیا گیا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے، تو نیٹو افغانستان سے اپنی فوج 14 ماہ کے اندر اندر واپس بلا لے گا۔

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے

اطلاع کے مطابق معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا۔

وہیں دوسری جابب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا۔

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاہدہ پر بھارتی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہوں گے، بظاہر جہاں افغانستان میں اٹھارہ برس سے زیادہ سے چلی آرہی طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے، وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی
امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جارہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہو تی ہے اور طالبان اور حکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا کارگر ہوتا ہے۔؟

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد مواقع پر ملاقاتیں کیں اور اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی، اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے۔

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے۔

چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے، لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغانستان اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جارہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔

ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، باوجود اس کے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کے لیے بری طرح بے قابو ہوسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کہا کہ بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن و سلامتی اور استحکام کے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے۔

ان مواقع میں افغانستان میں تشدد ختم ہونا، بین الاقوامی دہشت گردی کے ساتھ تعلقات ختم ہونا اور افغانستان کی قیادت، ملکیت اور کنٹرول میں ایک مستقل سیاسی معاہدہ ہونا شامل ہے'۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے
وزارت خارجہ کے ترجمان رويش کمار نے یہاں میڈیا سے کہا کہ 'بھارت کی پالیسی افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام لانے والے سبھی مواقع کی حمایت کرنا ہے

انہوں نے کہا کہ 'افغان حکومت، جمہوری نظام اور سول سوسائٹی سمیت پورے سیاسی نظام نے اس موقع کا خیر مقدم کیا ہے اور ان معاہدوں سے امن و استحکام کی امید کی جاتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ بھارت ایک قریبی پڑوسی ملک کے طور پر افغانستان میں قیام امن اور معاشرے کے سبھی طبقات کے مفادات کی حفاظت کرنے والے جمہوری اور خوشحال مستقبل کے لیے افغان حکومت اور لوگوں کو تمام طرح کی امداد جاری رکھے گا۔

خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے آج امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

بھارت نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے امن معاہدے اور کابل میں افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے مشترکہ اعلان کا استقبال کیا
بھارت نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے امن معاہدے اور کابل میں افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے مشترکہ اعلان کا استقبال کیا

امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوگئے، اور اس کا متن جاری کردیا گیا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے۔

اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے، تو نیٹو افغانستان سے اپنی فوج 14 ماہ کے اندر اندر واپس بلا لے گا۔

امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان امریکہ کی شرائط مان لیتا ہے تو امریکہ اور نیٹو 14 مہینوں میں افغانستان سے اپنی افواج کو مکمل طور واپس بلا لے گا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی وزیر دفاع مارک اوشو اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے درمیان پہلے ہی معاہدے ہیں جو عمل میں رہیں گے

اطلاع کے مطابق معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کرکے اسے آٹگ ہزار چھ سو تک لے آئے گا۔

وہیں دوسری جابب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ امریکہ، طالبان کے درمیان 19 برس سے جاری طویل جنگ کا خاتمہ کیا اس معاہدے سے ممکن ہے؟

امريکی وزيرخارجہ مائیک پومپیو دستخط کی تقريب ميں شریک تھے، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر نے بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا۔

بھارت کے سفیر برائے قطر پی کمارن اور اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننے کا شرف حاصل ہو رہا ہے، مسٹر پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس معاہدہ پر بھارتی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہوں گے، بظاہر جہاں افغانستان میں اٹھارہ برس سے زیادہ سے چلی آرہی طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے، وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی
امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا۔ معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جارہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہو تی ہے اور طالبان اور حکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا کارگر ہوتا ہے۔؟

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد مواقع پر ملاقاتیں کیں اور اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی، اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے۔

واضح رہے کہ اگست سنہ 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے، لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجوؤں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیے۔

چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے، لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغانستان اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جارہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔

ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، باوجود اس کے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کے لیے بری طرح بے قابو ہوسکتے ہیں۔

Last Updated : Mar 3, 2020, 12:37 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.