ETV Bharat / bharat

معاشی بحالی کیلئے مضبوط اصلاحات کا نفاذ

ہندوستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو رو بہ زوال ہے۔ 8 بڑی صنعتی اکائیاں جس میں انفراسٹرکچر کی صنعت شامل ہے، ان کی ترقی میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ یہ ملک میں معاشی سست روی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

author img

By

Published : Dec 21, 2019, 12:36 PM IST

معاشی بحالی کیلئے مضبوط اصلاحات کا نفاذ
معاشی بحالی کیلئے مضبوط اصلاحات کا نفاذ

اس کے علاوہ بین الاقوامی خدشات بھی کسی عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ہندوستان کی جی ڈی پی مزید نیچے لے جا رہی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ ادارے بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر فوی طور پر بہتری کی کوئی تدبیر نہ کی گئی تو پورا معاشی نظام کساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے۔

رواں مالی سال (20-2019) کے وسط جولائی سے ستمبر تک کی مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہو کر ریکارڈ 4.5 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے جو پچھلے 6 برسوں کی کمترین سطح ہے۔ 19-2018 کی اسی سہ ماہی میں یہ شرح 7.1 فیصد تھی۔

موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4.8 فیصد رہی جبکہ پچھلے سال اسی دوران شرح نمول 7.5 فیصد تھی۔ اکتوبر کے مہینے میں 8 بڑی انفراسٹرکچر صنعتوں کی پیداوار میں 5.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

صنعتی پیداوار، صارفین کی طلب، نجی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے جی ڈی پی کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ ان سب کے بعد اب معاشی بدحالی کے کے لیے اور کون سے ثبوط درکار ہیں؟

عالمی سطح پر طلب میں کمی اور امریکہ۔چین صنعتی جنگ بھی ہندوستانی جی ڈی پی کے زوال میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں، حکومت کی آمدنی کافی مایوس کن ہے۔ 20-2019 میں مرکزی حکومت کے جی ایس ٹی اور براہ راست ٹیکس وصولیوں میں 2.7 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہونے کی توقع ہے۔

حکومت نے معیشت کو بحال کرنے کی کوشش میں مختلف اسکیموں پر خرچ میں اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں مالی خسارہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کانفرنس برائے تجارت و ترقی (UNCTAD) نے پیش گوئی کی ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی کی نمو 2019-20 میں کم ہوکر تقریبا 6 فیصد تک آ جائے گی، جو سال 2018 میں 7.4فیصد تھی۔

عالمی بینک نے بھی اپنی متوقع ترقی 7.5 فیصد سے گھٹا کر 6 فیصد کر دی ہے۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ۔ موڈیز انوسٹرس سروسز نے اسے اب تک کی سب سے کم سطح 5.8 فیصد پر رکھا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف نے بھی اسے 7.1 سے 6.1 فیصد کر دیا ہے۔

جی ڈی پی میں گراوٹ کی وجہ گھریلو خدمات کی طلب میں کمی کو مانا جا رہا ہے۔ صنعتی پیداوار میں کمی، بے روزگاری، بشمول آٹوموبائل دیگر شعبوں میں فروخت کی کمی، اور امریکہ چین تجارتی دشمنی کی وجہ سے ہماری برآمدات میں سست روی بین الاقوامی معاشی منڈی میں ہندوستان کو آگے جانے سے روک رہی ہے۔

مرکزی حکومت نے معاشی سست روی پر قابو پانے کے لئے گزشتہ 3 سے 4 ماہ کے دوران کچھ اقدامات کیے ہیں۔ اس نے مختلف شعبوں کے فروغ کے لیے 32 فیصلے لیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے 2024-25 تک ہندوستان کو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے لئے کچھ اہم اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنی ریپو ریٹ کو 2019 میں پانچ بار کم کیا ہے۔ مارجینل اسٹینڈنگ فیسلٹی نے بینک کی شرخ کو کم کر کے 5.40 فیصد کر دیا ہے۔ کاروباری بینکوں کی ضرورت کے وقت آر بی آئی ان ہی نرخوں پر انھیں فنڈ دیتی ہے۔

ریپو ریٹ میں کمی سے تجارتی بینکوں کو ریزرو بینک سے کم قرض لینے اور افراد اور کمپنیوں کو قرض دینے میں مدد ملے گی۔ ان قرضوں سے طلب، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ ریزرو بینک کے ذریعہ برسوں سے سود کی شرحوں میں کمی کے باوجود بینکوں نے صارفین کو یہ فائدہ منتقل نہیں کیا ہے۔ اس بار کم شرح سود پر رٹیل لون دینا خوش آئند قدم ہے۔

اس سے ہوم لون، آٹو لون اور دیگر رٹیل لون کی ماہانہ قسطوں کے لیے ادا کی جانے والی رقم میں کم آئے گی اور اس سے طلب میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ طلب کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ ایسے میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ ہندوستانی تجارتی اور معاشی بازار میں آٹو موبائل کے شعبے کا حصہ تقریباً 49 فیصد ہے۔

اس شعبے میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 3.7 کروڑ افراد کام کرتے ہیں۔ آٹوموٹو شعبہ اسٹیل ، ایلومینیم اور ٹائر کی صنعتوں سے براہ راست جڑا ہے۔ اگر گاڑیوں کی طلب میں کمی آتی ہے تو، مندرجہ بالا صنعتوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اس سال اپریل سے جون 2019 میں مسافروں گاڑیوں کی فروخت میں تقریبا 18.42 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

تمام قسموں کی گاڑیوں کی فروخت میں 12.35 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے لاکھوں ملازمین کی نوکریاں جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ 23 اگست کو، حکومت نے آٹو صنعت کے مسائل کے حل کے لئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا۔

اس کے ایک حصے کے طور پر، سرکاری محکموں نے نئی گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔ 30 اگست کو، حکومت نے دس پبلک سیکٹر بینکوں کو ضم کردیا اور اسے چار بڑے بینکوں میں تبدیل کردیا۔ انضمام سے بینکوں کے فنڈز کو دستیابی میں اضافہ ہوگا اور وہ زیادہ سے زیادہ قرض دے پائیں گے۔

مرکزی حکومت پبلک سیکٹر بینکوں کو 70،000 کروڑ روپئے کی اضافی رقم فراہم کرے گی تاکہ انھیں عوام میں آسانی سے قرض فراہم کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ کاروبار شروع کرنے کے خواہشمند افراد کی حوصلہ افزائی کی کے لیے، جن لوگوں کی سالانہ آمدنی 2 کروڑ سے 5 کروڑ تک ہوتی ہے، مرکزی حکومت نے گذشتہ سال کے بجٹ میں سرچارج کو 15 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

جبکہ 5 کروڑ سے زیادہ کی آمدنی والے تاجروں کم از کم 37 فیصد سر چارج ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے احتجاج میں، غیر ملکی پورٹفولیو انویسٹرز (ایف پی آئی) نے بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد ہندوستانی اسٹاک مارکٹ سے 24،000 کروڑ روپئے نکال لیے۔ اس کے بعد حکومت نے سرمائے میں ہونے والے منافع پر سرچارج واپس لے لیا ہے۔

بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں کمپنیوں کو مالی خدمات فراہم کرنے والے IL&FS کے بحران نے غیر بینکاری مالیاتی کمپنیوں (این بی ایف سی) کی حالت زار کو بے نقاب کردیا ہے۔ این بی ایف سی کو اپنی استطاعت سے زیادہ قرض دینے اور اثاثوں سے زیادہ بڑھتے ہوئے قرضوں کے دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اب ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ مزید قرض فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ بشمول رئیل اسٹیٹ شعبے کے متعدد شعبوں پر اس کا منفی اثر پڑا ہے۔ صورتحال کی بہتری کے لئے، حکومت نے مداخلت کی اور بینکوں کےقرضوں کی حد کو NBFC میں 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کردیا ہے۔

این بی ایف سی زراعت، مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور
رہائش کے شعبوں کو ترجیحی قرضوں کے طور پر قرض فراہم کرتی ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ
ان اقدامات سے بینکوں سے این بی ایف سی تک قرض کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ ہاؤسنگ
اور برآمدات کو فروغ دینے کے لئے مرکز نے اہم مراعات بھی فراہم کی ہیں۔ غریب اور متوسط
طبقے کے لئے دس ہزار کروڑ روپے کے فنڈ کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے
ہاؤسنگ کے نامکمل منصوبے کو مکمل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ساتھ ہی اس نے برآمدات پر
ٹیکس یا محصولات کی چھوٹ کے لئے ایک نئی اسکیم کا آغاز کیا۔ برآمد کنندگان کی کی آسانی
کے لئے’جی ایس ٹی‘ اور ’ان پٹ ٹیکس کریڈٹ‘ کی ادائیگی کے لئے ایک خودکار الیکٹرانک
روٹ متعارف کرایا گیا ہے۔ بینک انہیں ورکنگ کیپیٹل فراہم کرتے ہیں جو ایکسپورٹ کریڈٹ کارڈ
کمپنی کے ذریعہ اعلی انشورنس پروٹیکشن فراہم کرتے ہیں۔ مرکز نے یہ بھی اعلان کیا ہےکہ ایکسپورٹ کریڈٹ کو بھی طویل مدتی ترجیحی قرض سمجھا جائے گا۔ 20 ستمبر کو مرکز کے ذریعہ اچانک کیا جانے والا فیصلہ حیران کن تھا۔

اس فیصلے کے تحت ان کمپنیوں کے کارپوریٹ ٹیکس کو 30 سے 22 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جنھیں حکومت سے ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں ملتی ہے۔ اس فیصلے سے سرمایہ کاری میں اضافے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ، ان مینوفیکچرنگ اسٹارٹ اپ صنعتوں پر ٹیکس جو اس سال یکم اکتوبر کے بعد لگے ہیں اور 31 مارچ 2023 سے پہلے اپنی مینوفیکچرنگ شروع کردیں گے آئندہ صرف 15 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔

مقامی کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 22 فیصد ہے جنھیں بالآخر 25.17 فیصد جبکہ نئی صنعتوں کو 17.1 ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ کارپوریٹ ٹیکس کی یہ مراعات جی ایس ٹی کے بعد سب سے اہم اصلاحات ہیں۔

کارپوریٹ ٹیکس کم ہونے کے صورت میں، بین الاقوامی بازار میں ہماری مصنوعات غیر ملکی مصنوعات کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ جنوبی کوریا اور انڈونیشیا میں کارپوریٹ ٹیکس 25 ہے۔ جبکہ سنگ پور اور ہانگ کانگ میں 17 فیصد، برطانیہ میں 19 فیصد اور تھائی لینڈ میں 20 فیصد ہے۔ ایشیا میں 21.09 فیصد کے کارپوریٹ ٹیکس کے مقابلے کارپوریٹ ٹیکس کا عالمی اوسط 23.79 فیصد ہے۔

حکومت ہند کارپوریٹ ٹیکس کو کم کرنے اور صنعتی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لئے چین پر بھی زور دے رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کو بین الاقوامی اوسط کے قریب لاکر غیر ملکی سرمایہ کاری کو ہندوستان لا کر حکومت میک ان انڈیا کو تقویت بخشنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی ایک ایسا قدم ہے جو بہت پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا، لیکن کمپنیوں کو دی گئی اس چھوٹ سے کمپنیاں اپنے قرضوں کی ادائیگی کر رہی ہیں، اپنے شیئر ہولڈرز کو ڈیویڈنڈ دینگی، اپنی مصنوعات کی قیمت کم کریں گی، فروخت کو فروغ دیں گی اور نئی سرمایہ کاری کریں گی۔ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی سے، اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگا۔

جسے پورا کرنے کے لیے مصنوعات میں بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے، سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع میں وسعت آئیگی۔ اگرچہ کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کی وجہ سے حکومتی ٹیکس محصولات میں سالانہ 1.45 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، تاہم، توقع ہے کہ یہ رقم نجی شعبے کے ذریعہ واپس آئے گی۔ معاشی ماہرین کو امید ہے کہ اس سے حکومت کے ٹیکس محصولات کو پورا کیا جائے گا اور خسارے کی رقم واپس آ جائے گی۔ لیکن ان تمام اقدام سے نتائج کے حصول میں وقت لگے گا۔

7 نومبر کو، بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کمپنی موڈیز انویسٹر سروس نے ہندوستان کی ریٹنگ کو ’مستحکم‘ سے گھٹا کر ’منفی‘ کردیا۔ اس نے متعدد ہندوستانی کمپنیوں کی ریٹنگ بھی کم کر دی ہے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور بین الاقوامی قرضے تب ہی آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں جب ان ممالک اور کمپنیوں کی اچھی ریٹنگ ہو۔

موڈیز نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر حالات فوری طور پر بہتر نہیں ہوئے تو ہندوستان قرض اور کساد بازاری کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس بحران سے بچنے کے لیے، ہندوستان کو نظام کی سطح پر کچھ تیز گام اصلاحات کرنے ہوں گے اور عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک کی حیثیت سے اس کی ساکھ بحال کرنا ہوگی-

اس کے علاوہ بین الاقوامی خدشات بھی کسی عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ہندوستان کی جی ڈی پی مزید نیچے لے جا رہی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ ادارے بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر فوی طور پر بہتری کی کوئی تدبیر نہ کی گئی تو پورا معاشی نظام کساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے۔

رواں مالی سال (20-2019) کے وسط جولائی سے ستمبر تک کی مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہو کر ریکارڈ 4.5 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے جو پچھلے 6 برسوں کی کمترین سطح ہے۔ 19-2018 کی اسی سہ ماہی میں یہ شرح 7.1 فیصد تھی۔

موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4.8 فیصد رہی جبکہ پچھلے سال اسی دوران شرح نمول 7.5 فیصد تھی۔ اکتوبر کے مہینے میں 8 بڑی انفراسٹرکچر صنعتوں کی پیداوار میں 5.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

صنعتی پیداوار، صارفین کی طلب، نجی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے جی ڈی پی کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ ان سب کے بعد اب معاشی بدحالی کے کے لیے اور کون سے ثبوط درکار ہیں؟

عالمی سطح پر طلب میں کمی اور امریکہ۔چین صنعتی جنگ بھی ہندوستانی جی ڈی پی کے زوال میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں، حکومت کی آمدنی کافی مایوس کن ہے۔ 20-2019 میں مرکزی حکومت کے جی ایس ٹی اور براہ راست ٹیکس وصولیوں میں 2.7 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہونے کی توقع ہے۔

حکومت نے معیشت کو بحال کرنے کی کوشش میں مختلف اسکیموں پر خرچ میں اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں مالی خسارہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کانفرنس برائے تجارت و ترقی (UNCTAD) نے پیش گوئی کی ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی کی نمو 2019-20 میں کم ہوکر تقریبا 6 فیصد تک آ جائے گی، جو سال 2018 میں 7.4فیصد تھی۔

عالمی بینک نے بھی اپنی متوقع ترقی 7.5 فیصد سے گھٹا کر 6 فیصد کر دی ہے۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ۔ موڈیز انوسٹرس سروسز نے اسے اب تک کی سب سے کم سطح 5.8 فیصد پر رکھا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف نے بھی اسے 7.1 سے 6.1 فیصد کر دیا ہے۔

جی ڈی پی میں گراوٹ کی وجہ گھریلو خدمات کی طلب میں کمی کو مانا جا رہا ہے۔ صنعتی پیداوار میں کمی، بے روزگاری، بشمول آٹوموبائل دیگر شعبوں میں فروخت کی کمی، اور امریکہ چین تجارتی دشمنی کی وجہ سے ہماری برآمدات میں سست روی بین الاقوامی معاشی منڈی میں ہندوستان کو آگے جانے سے روک رہی ہے۔

مرکزی حکومت نے معاشی سست روی پر قابو پانے کے لئے گزشتہ 3 سے 4 ماہ کے دوران کچھ اقدامات کیے ہیں۔ اس نے مختلف شعبوں کے فروغ کے لیے 32 فیصلے لیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے 2024-25 تک ہندوستان کو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے لئے کچھ اہم اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے اپنی ریپو ریٹ کو 2019 میں پانچ بار کم کیا ہے۔ مارجینل اسٹینڈنگ فیسلٹی نے بینک کی شرخ کو کم کر کے 5.40 فیصد کر دیا ہے۔ کاروباری بینکوں کی ضرورت کے وقت آر بی آئی ان ہی نرخوں پر انھیں فنڈ دیتی ہے۔

ریپو ریٹ میں کمی سے تجارتی بینکوں کو ریزرو بینک سے کم قرض لینے اور افراد اور کمپنیوں کو قرض دینے میں مدد ملے گی۔ ان قرضوں سے طلب، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ ریزرو بینک کے ذریعہ برسوں سے سود کی شرحوں میں کمی کے باوجود بینکوں نے صارفین کو یہ فائدہ منتقل نہیں کیا ہے۔ اس بار کم شرح سود پر رٹیل لون دینا خوش آئند قدم ہے۔

اس سے ہوم لون، آٹو لون اور دیگر رٹیل لون کی ماہانہ قسطوں کے لیے ادا کی جانے والی رقم میں کم آئے گی اور اس سے طلب میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ طلب کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ ایسے میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ ہندوستانی تجارتی اور معاشی بازار میں آٹو موبائل کے شعبے کا حصہ تقریباً 49 فیصد ہے۔

اس شعبے میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 3.7 کروڑ افراد کام کرتے ہیں۔ آٹوموٹو شعبہ اسٹیل ، ایلومینیم اور ٹائر کی صنعتوں سے براہ راست جڑا ہے۔ اگر گاڑیوں کی طلب میں کمی آتی ہے تو، مندرجہ بالا صنعتوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اس سال اپریل سے جون 2019 میں مسافروں گاڑیوں کی فروخت میں تقریبا 18.42 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

تمام قسموں کی گاڑیوں کی فروخت میں 12.35 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے لاکھوں ملازمین کی نوکریاں جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ 23 اگست کو، حکومت نے آٹو صنعت کے مسائل کے حل کے لئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا۔

اس کے ایک حصے کے طور پر، سرکاری محکموں نے نئی گاڑیوں کی خریداری پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔ 30 اگست کو، حکومت نے دس پبلک سیکٹر بینکوں کو ضم کردیا اور اسے چار بڑے بینکوں میں تبدیل کردیا۔ انضمام سے بینکوں کے فنڈز کو دستیابی میں اضافہ ہوگا اور وہ زیادہ سے زیادہ قرض دے پائیں گے۔

مرکزی حکومت پبلک سیکٹر بینکوں کو 70،000 کروڑ روپئے کی اضافی رقم فراہم کرے گی تاکہ انھیں عوام میں آسانی سے قرض فراہم کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ کاروبار شروع کرنے کے خواہشمند افراد کی حوصلہ افزائی کی کے لیے، جن لوگوں کی سالانہ آمدنی 2 کروڑ سے 5 کروڑ تک ہوتی ہے، مرکزی حکومت نے گذشتہ سال کے بجٹ میں سرچارج کو 15 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

جبکہ 5 کروڑ سے زیادہ کی آمدنی والے تاجروں کم از کم 37 فیصد سر چارج ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے احتجاج میں، غیر ملکی پورٹفولیو انویسٹرز (ایف پی آئی) نے بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد ہندوستانی اسٹاک مارکٹ سے 24،000 کروڑ روپئے نکال لیے۔ اس کے بعد حکومت نے سرمائے میں ہونے والے منافع پر سرچارج واپس لے لیا ہے۔

بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں کمپنیوں کو مالی خدمات فراہم کرنے والے IL&FS کے بحران نے غیر بینکاری مالیاتی کمپنیوں (این بی ایف سی) کی حالت زار کو بے نقاب کردیا ہے۔ این بی ایف سی کو اپنی استطاعت سے زیادہ قرض دینے اور اثاثوں سے زیادہ بڑھتے ہوئے قرضوں کے دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اب ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ مزید قرض فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ بشمول رئیل اسٹیٹ شعبے کے متعدد شعبوں پر اس کا منفی اثر پڑا ہے۔ صورتحال کی بہتری کے لئے، حکومت نے مداخلت کی اور بینکوں کےقرضوں کی حد کو NBFC میں 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کردیا ہے۔

این بی ایف سی زراعت، مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور
رہائش کے شعبوں کو ترجیحی قرضوں کے طور پر قرض فراہم کرتی ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ
ان اقدامات سے بینکوں سے این بی ایف سی تک قرض کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ ہاؤسنگ
اور برآمدات کو فروغ دینے کے لئے مرکز نے اہم مراعات بھی فراہم کی ہیں۔ غریب اور متوسط
طبقے کے لئے دس ہزار کروڑ روپے کے فنڈ کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے
ہاؤسنگ کے نامکمل منصوبے کو مکمل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ساتھ ہی اس نے برآمدات پر
ٹیکس یا محصولات کی چھوٹ کے لئے ایک نئی اسکیم کا آغاز کیا۔ برآمد کنندگان کی کی آسانی
کے لئے’جی ایس ٹی‘ اور ’ان پٹ ٹیکس کریڈٹ‘ کی ادائیگی کے لئے ایک خودکار الیکٹرانک
روٹ متعارف کرایا گیا ہے۔ بینک انہیں ورکنگ کیپیٹل فراہم کرتے ہیں جو ایکسپورٹ کریڈٹ کارڈ
کمپنی کے ذریعہ اعلی انشورنس پروٹیکشن فراہم کرتے ہیں۔ مرکز نے یہ بھی اعلان کیا ہےکہ ایکسپورٹ کریڈٹ کو بھی طویل مدتی ترجیحی قرض سمجھا جائے گا۔ 20 ستمبر کو مرکز کے ذریعہ اچانک کیا جانے والا فیصلہ حیران کن تھا۔

اس فیصلے کے تحت ان کمپنیوں کے کارپوریٹ ٹیکس کو 30 سے 22 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جنھیں حکومت سے ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں ملتی ہے۔ اس فیصلے سے سرمایہ کاری میں اضافے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ، ان مینوفیکچرنگ اسٹارٹ اپ صنعتوں پر ٹیکس جو اس سال یکم اکتوبر کے بعد لگے ہیں اور 31 مارچ 2023 سے پہلے اپنی مینوفیکچرنگ شروع کردیں گے آئندہ صرف 15 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔

مقامی کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 22 فیصد ہے جنھیں بالآخر 25.17 فیصد جبکہ نئی صنعتوں کو 17.1 ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ کارپوریٹ ٹیکس کی یہ مراعات جی ایس ٹی کے بعد سب سے اہم اصلاحات ہیں۔

کارپوریٹ ٹیکس کم ہونے کے صورت میں، بین الاقوامی بازار میں ہماری مصنوعات غیر ملکی مصنوعات کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ جنوبی کوریا اور انڈونیشیا میں کارپوریٹ ٹیکس 25 ہے۔ جبکہ سنگ پور اور ہانگ کانگ میں 17 فیصد، برطانیہ میں 19 فیصد اور تھائی لینڈ میں 20 فیصد ہے۔ ایشیا میں 21.09 فیصد کے کارپوریٹ ٹیکس کے مقابلے کارپوریٹ ٹیکس کا عالمی اوسط 23.79 فیصد ہے۔

حکومت ہند کارپوریٹ ٹیکس کو کم کرنے اور صنعتی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لئے چین پر بھی زور دے رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کو بین الاقوامی اوسط کے قریب لاکر غیر ملکی سرمایہ کاری کو ہندوستان لا کر حکومت میک ان انڈیا کو تقویت بخشنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی ایک ایسا قدم ہے جو بہت پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا، لیکن کمپنیوں کو دی گئی اس چھوٹ سے کمپنیاں اپنے قرضوں کی ادائیگی کر رہی ہیں، اپنے شیئر ہولڈرز کو ڈیویڈنڈ دینگی، اپنی مصنوعات کی قیمت کم کریں گی، فروخت کو فروغ دیں گی اور نئی سرمایہ کاری کریں گی۔ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی سے، اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگا۔

جسے پورا کرنے کے لیے مصنوعات میں بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے، سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع میں وسعت آئیگی۔ اگرچہ کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کی وجہ سے حکومتی ٹیکس محصولات میں سالانہ 1.45 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہو رہا ہے، تاہم، توقع ہے کہ یہ رقم نجی شعبے کے ذریعہ واپس آئے گی۔ معاشی ماہرین کو امید ہے کہ اس سے حکومت کے ٹیکس محصولات کو پورا کیا جائے گا اور خسارے کی رقم واپس آ جائے گی۔ لیکن ان تمام اقدام سے نتائج کے حصول میں وقت لگے گا۔

7 نومبر کو، بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ کمپنی موڈیز انویسٹر سروس نے ہندوستان کی ریٹنگ کو ’مستحکم‘ سے گھٹا کر ’منفی‘ کردیا۔ اس نے متعدد ہندوستانی کمپنیوں کی ریٹنگ بھی کم کر دی ہے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور بین الاقوامی قرضے تب ہی آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں جب ان ممالک اور کمپنیوں کی اچھی ریٹنگ ہو۔

موڈیز نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر حالات فوری طور پر بہتر نہیں ہوئے تو ہندوستان قرض اور کساد بازاری کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس بحران سے بچنے کے لیے، ہندوستان کو نظام کی سطح پر کچھ تیز گام اصلاحات کرنے ہوں گے اور عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک کی حیثیت سے اس کی ساکھ بحال کرنا ہوگی-

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.