ETV Bharat / bharat

تالہ بندی کے دوران پیش آنے والے نفسیاتی مسائل سے کیسے نپٹیں؟

کووِڈ-19 کو قابو کرنے کی سرکاری کوششوں میں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی مساوی توجہ اور پیغام ہونا چاہیئے اور سماجی فاصلہ بنانے کیلئے چلائی جانے والی مہم میں ٹیکنالوجی کے ذریعہ سماجی طور پر جُڑے رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جانا چاہیئے

تالہ بندی کے دوران پیش آنے والے نفسیاتی مسائل سے کیسے نپٹیں؟
تالہ بندی کے دوران پیش آنے والے نفسیاتی مسائل سے کیسے نپٹیں؟
author img

By

Published : Apr 4, 2020, 5:55 PM IST

کورونا وائرس (کووِڈ-19) کی وبا نے عالمی سطح پر ہر کسی کی زندگی کو بُری طرح متاثر کردیا ہے اور بھارت میں صورتحال مختلف نہیں ہے۔ اس نوعیت کی اس صورتحال میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ہر شخص پریشان اور دباؤ میں ہے۔ کووِڈ-19 کو قابو کرنے کیلئے کی گئی تالہ بندی یوں تو سب کیلئے بڑی مشکل ہے لیکن بچوں ، بزرگوں ، قرنطینہ میں رکھے گئے لوگوں اور سب سے بڑھکر سماج کے اُن غریب کمزور طبقوں کیلئے حالات سب سے مشکل ہیں جو غیر منظم شعبے سے جُڑے ہیں اور یومیہ اُجرت پر کام کرکے روزگار چلاتے ہیں۔ کووِڈ-19 کی وبا کے چلینج کے ساتھ سامنے رہتے ہوئے لڑ رہے صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکن بھی اعلیٰ سطح کے دباؤ اور بے چینی کا شکار ہیں۔ چین میں حال ہی ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ طبی شعبہ اور صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکنان کورونا وائرس کے مریضوں کا خیال رکھنے کی وجہ سے زبردست نفسیات دباؤ اور بوجھ کا شکار ہیں۔

ہم میں سے ہر کوئی صورتحال پر مختلف طرح کا ردِ عمل دکھاتے ہیں، کچھ تو فوراََ منفی ردِ عمل دکھاتے ہیں اور بعض لوگ بعدازاں مشکلات کی علامات دکھاسکتے ہیں۔ ڈپریشن یا افسردگی، بے چینی، گھبراہٹ، مستقبل سے متعلق خوف، نا اُمیدی، لاچاری، پہلے سے موجود صحت کے حالات کی خرابی،سماج سے دوری اور اچھے سے نہ کھا پانے اور نہ سو پانے جیسی چیزیں کمزور دماغی صحت کی چند نشانیاں ہیں۔غیر یقنیت اور سماجی تحفظ کے مناسب نظام کی عدم موجودگی سماج کے سب سے کمزور طبقوں کیلئے ذہنی دباؤ، بے چینی اور منفی ردِ عمل کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق آبادی کے بعض گروہوں کو کمزور سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی وجوہات سے ذہنی صحت کے زیادہ مسائل درپیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا آبادی کے کمزور طبقوں کی نفسیاتی صحت کے فروغ اور تحفظ کیلئے خاص پروگراموں کا چلایا جانا ضروری ہے۔

غریب اور کمزور خاندانوں کیلئے معاشرتی تحفظ کی مضبوطی کے اقدامات اور سبھی شعبہ جات کے مالکوں کی جانب سے روزگار اور آمدنی کی مسلسل فراہمی اعلیٰ ترین ترجیح ہونی چاہیئے۔یہ حفاظتی اقدامات لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں اور اُنہیں احساسِ تحفظ اور سلامتی دلا سکتے ہیں اور یوں اُنکی نفسیاتی پر منفی اثرات پڑنے کی صورتحال کو ٹالا جاسکتا ہے۔مالکوں کو ملازمین کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے، معاملہ کسی گھریلو نوکر کا ہو، کسی چھوٹی فیکٹری کے ملازم کا یا پھر تعمیراتی شعبہ کے کسی مزدور کا تالہ بندی کے دوران اُنکی مدد کرنا انتہائی لازمی ہے۔ اسی طرح تالہ بندی کے دوران گھروں سے کام کرنے والے عملہ اور ساتھیوں باالخصوص جنکے گھروں میں چھوٹے بچے اور بزرگ ہوں ان کیلئے کام کی ضروریات میں لچک پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

ان وجوہات کیلئے نفسیاتی مسائل کیلئے سوچنا کووِڈ-19 کی وبا کے دوران یہ صحتِ عامہ کے نظام کا ایک حصہ ہی تصور کیا جانا چاہیئے بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ کووِڈ-19 کو قابو کرنے کی سرکاری کوششوں میں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی مساوی توجہ اور پیغام ہونا چاہیئے اور سماجی فاصلہ بنانے کیلئے چلائی جانے والی مہم میں ٹیکنالوجی کے ذریعہ سماجی طور پر جُڑے رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جانا چاہیئے۔قرنطینہ میں رکھے جاچکے لوگوں ، اُنکے لواحقین ، صحتِ عامہ کے کارکنوں اور بزرگوں وغیرہ کیلئے فون کے ذریعہ نفسیاتی تعاون کے پروگرام چلانا اہم ہے ۔ اس پیغام کے تعلق سے مدد دستیاب ہیں اور نفسیاتی مسائل پر تعاون طلب کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، بحرانی صورتحال کے دوران عام لوگوں تک پہنچنا بہت ضروری ہے اور اسے پہنچایا جانا چاہیئے۔

سرکاری کوششوں کے علاوہ بحیثیتِ شہری یہ ہماری ذإہ داری ہے کہ ہم گھر بیٹھیں اور ساتھ ہی اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کیلئےہمدرد اور معاون بنے رہیں۔ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ قرنطینہ میں رکھے جاچکے اور کوونا وائرس کا شکار ہونے والے لوگوں کو شکار نہ بنائیں اور انکے متعلق ’’کیسز‘‘ اور ’’وکٹمز‘‘ کا حوالہ دیکر بات نہ کریں۔ صحت کی دیکھ بال کرنے والے عملہ کے تئیں نرمی اور ہمدردی کا اظہار کئے جانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی آس پڑوس میں رہنے والے خاندانوں کے ساتھ بھی بلکہ انفکشن لگنے کے خوف سے کسی کے ساتھ بھی کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جانا چاہیئے۔ بلکہ جو لوگ اور خاندان سامنے رہتے ہوئے کووِڈ-19 کی وبا کے ساتھ نبردآزما ہیں اُنکی تعریفیں کی جانی چاہیئے اور اُنکا حوصلہ بڑھایا جانا چاہیئے کہ یہ بہادر ہی سامنے رہتے ہوئے اس مہلک بیماری کو ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک دوسرے کی مدد کرنے کے طریقے نکالنا خود ہمارے ہاتھ میں ہے، آس پڑوس کو بزرگ جوڑا رہتا ہو یا کوئی ہم سے بہت دور ہو ایک دوسرے کی اشیائے ضروریہ اور ادویات وغیرہ کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ ہم فقط زبانی خیریت پوچھ کر بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں ۔

ہم تالہ بندی کے دوران مندرجہ ذیل سادہ اقدامات کے ذریعہ اپنی اور دیگروں کی مدد کرسکتے ہیں:

1. جُڑے رہیں: گھر بیٹھیں اور فیملی و دوستوں کے ساتھ فون اور ویڈیو کالز کے ذریعہ جُڑے رہیں۔ اُن لوگوں کے ساتھ جن پر آپ بھروسہ کرتے ہیں، بات کریں اور اُنسے اپنے احساسات کے بارے میں بولئے اور یہ پوچھیئے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔

2. دباؤ میں ڈالنے والی باتوں سے دور رہیں: کووِڈ-19 کے بارے میں مسلسل خبریں سُنتے رہنے سے مایوسی آسکتی ہے، خبروں اور سوشل میڈیا سے کچھ دیر کیلئے رخصت لیا کریں، اسکرین کے ساتھ مسلسل نہ جُڑے رہیں۔ کووِڈ-19 سے ہلاک ہونے والوں کی بجائے اس بیماری میں ملوث ہونے کے بعد روبہ صحت ہونے والوں کے بارے میں زیادہ سوچیئے۔

3. اپنے معمولات پر قائم رہیں: جہاں تک ہوسکے اپنے روز مرہ کے معمول کو قائم رکھیں۔ وقت پر کھایئے اور وقت پر سوجایا کریئے۔ اُن کاموں میں مصروف رہیئے جن میں آپ کو مزہ آتا ہے۔ جو لوگ ابھی گھروں سے ہی کام کرتے ہیں ،کام کیلئے کوئی خاص جگہ مقررر کریئے اور اس پر قائم رہیئے۔ کام کا ایک وقت مقرر کیجئے اور کام ختم کرنے پر اس جگہ سے اُٹھ ر جایئے۔

4. تندرست رہیئے: روزانہ گھر پرہی ورزش کیجیئے، سانس لینے کی مشق کیلئے وقت نکالیئے یا مراقبہ کیجیئے۔ صحت افزاٗ کھایئے،شراب اور تمباکو سے پرہیز کیجیئے۔

5. سماجی خدمت (فاصلے سے): لوگوں کے کام آیئے۔ مشکل وقت میں مہربانی کا کوئی چھوٹا سا کام یا مدد فقط اُسی شخص کیلئے بڑی اہم نہیں ہے جسکی مدد کی جارہی ہو بلکہ خود مددگار کا بھی اس میں فائدہ ہے۔ آپ ہاؤسنگ والنٹئیر گروپ میں شامل ہوکر اُن بزرگوں کے کام آسکتے ہیں کہ جو گھروں میں تنہا رہتے ہیں۔

6. نشانے مقرر کیجیئے: تالہ بندی کے دورانیہ کیلئے اپنے لئے چھوٹے ہدف مقرر کیجیئے اور اُنہیں حاصل کرنے کی کوشش کیجیئے۔

7. اظہارِ تشکر کیجیئے:اپنے دن کی شروعات اور خاتمہ شکریہ کے ساتھ کیجیئے ، اُن سبھی چیزوں کو یاد کیجیئے کہ جنکے تئیں آپ زندگی میں شکر گذار ہیں۔ کووِڈ-19 کا سامنے سے مقابلہ کرنے والے صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکنوں اور اُنکے خاندانوں کے تئیں احساسِ تشکر پیدا کیجیئے۔

اور آخر پر کیوں نہ ہم خود کو یاد دلائیں کہ ’’یہ وقت بھی گذر جائے گا‘‘ یا ’’میں اس صورتحال کو سنبھال سکتا ہوں‘‘ اور ہم وقتِ ضرورت ماہرینِ نفسیات سے مدد لینے میں ہچکچائیں گے نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ مدد دستیاب ہے!

نفسیاتی مسائل میں مدد کیلئے نمبرات:

سرکار کا مفت نمبر از نیشنل انسٹیچیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس(این آئی ایم ایچ اے این ایس)- 080 – 46110007

سنٹرل انسٹیچیوٹ آف سائکیاٹری (سی آئی پی)- 0651-2451115/119

کرائسز سپورٹ اینڈ کونسلنگ سنٹر،(آئی ایچ بی اے ایس) - 011-22574820

کنٹریبیوٹڑ:

ڈاکٹر شلپا سدانند، ماہرِ نفسیات

ایسسٹنٹ پروفیسر،انڈین انسٹیچیوٹ آف پبلک ہیلتھ- حیدرآباد

کورونا وائرس (کووِڈ-19) کی وبا نے عالمی سطح پر ہر کسی کی زندگی کو بُری طرح متاثر کردیا ہے اور بھارت میں صورتحال مختلف نہیں ہے۔ اس نوعیت کی اس صورتحال میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ہر شخص پریشان اور دباؤ میں ہے۔ کووِڈ-19 کو قابو کرنے کیلئے کی گئی تالہ بندی یوں تو سب کیلئے بڑی مشکل ہے لیکن بچوں ، بزرگوں ، قرنطینہ میں رکھے گئے لوگوں اور سب سے بڑھکر سماج کے اُن غریب کمزور طبقوں کیلئے حالات سب سے مشکل ہیں جو غیر منظم شعبے سے جُڑے ہیں اور یومیہ اُجرت پر کام کرکے روزگار چلاتے ہیں۔ کووِڈ-19 کی وبا کے چلینج کے ساتھ سامنے رہتے ہوئے لڑ رہے صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکن بھی اعلیٰ سطح کے دباؤ اور بے چینی کا شکار ہیں۔ چین میں حال ہی ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ طبی شعبہ اور صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکنان کورونا وائرس کے مریضوں کا خیال رکھنے کی وجہ سے زبردست نفسیات دباؤ اور بوجھ کا شکار ہیں۔

ہم میں سے ہر کوئی صورتحال پر مختلف طرح کا ردِ عمل دکھاتے ہیں، کچھ تو فوراََ منفی ردِ عمل دکھاتے ہیں اور بعض لوگ بعدازاں مشکلات کی علامات دکھاسکتے ہیں۔ ڈپریشن یا افسردگی، بے چینی، گھبراہٹ، مستقبل سے متعلق خوف، نا اُمیدی، لاچاری، پہلے سے موجود صحت کے حالات کی خرابی،سماج سے دوری اور اچھے سے نہ کھا پانے اور نہ سو پانے جیسی چیزیں کمزور دماغی صحت کی چند نشانیاں ہیں۔غیر یقنیت اور سماجی تحفظ کے مناسب نظام کی عدم موجودگی سماج کے سب سے کمزور طبقوں کیلئے ذہنی دباؤ، بے چینی اور منفی ردِ عمل کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق آبادی کے بعض گروہوں کو کمزور سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی وجوہات سے ذہنی صحت کے زیادہ مسائل درپیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا آبادی کے کمزور طبقوں کی نفسیاتی صحت کے فروغ اور تحفظ کیلئے خاص پروگراموں کا چلایا جانا ضروری ہے۔

غریب اور کمزور خاندانوں کیلئے معاشرتی تحفظ کی مضبوطی کے اقدامات اور سبھی شعبہ جات کے مالکوں کی جانب سے روزگار اور آمدنی کی مسلسل فراہمی اعلیٰ ترین ترجیح ہونی چاہیئے۔یہ حفاظتی اقدامات لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں اور اُنہیں احساسِ تحفظ اور سلامتی دلا سکتے ہیں اور یوں اُنکی نفسیاتی پر منفی اثرات پڑنے کی صورتحال کو ٹالا جاسکتا ہے۔مالکوں کو ملازمین کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے، معاملہ کسی گھریلو نوکر کا ہو، کسی چھوٹی فیکٹری کے ملازم کا یا پھر تعمیراتی شعبہ کے کسی مزدور کا تالہ بندی کے دوران اُنکی مدد کرنا انتہائی لازمی ہے۔ اسی طرح تالہ بندی کے دوران گھروں سے کام کرنے والے عملہ اور ساتھیوں باالخصوص جنکے گھروں میں چھوٹے بچے اور بزرگ ہوں ان کیلئے کام کی ضروریات میں لچک پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

ان وجوہات کیلئے نفسیاتی مسائل کیلئے سوچنا کووِڈ-19 کی وبا کے دوران یہ صحتِ عامہ کے نظام کا ایک حصہ ہی تصور کیا جانا چاہیئے بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ کووِڈ-19 کو قابو کرنے کی سرکاری کوششوں میں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی مساوی توجہ اور پیغام ہونا چاہیئے اور سماجی فاصلہ بنانے کیلئے چلائی جانے والی مہم میں ٹیکنالوجی کے ذریعہ سماجی طور پر جُڑے رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جانا چاہیئے۔قرنطینہ میں رکھے جاچکے لوگوں ، اُنکے لواحقین ، صحتِ عامہ کے کارکنوں اور بزرگوں وغیرہ کیلئے فون کے ذریعہ نفسیاتی تعاون کے پروگرام چلانا اہم ہے ۔ اس پیغام کے تعلق سے مدد دستیاب ہیں اور نفسیاتی مسائل پر تعاون طلب کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، بحرانی صورتحال کے دوران عام لوگوں تک پہنچنا بہت ضروری ہے اور اسے پہنچایا جانا چاہیئے۔

سرکاری کوششوں کے علاوہ بحیثیتِ شہری یہ ہماری ذإہ داری ہے کہ ہم گھر بیٹھیں اور ساتھ ہی اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کیلئےہمدرد اور معاون بنے رہیں۔ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ قرنطینہ میں رکھے جاچکے اور کوونا وائرس کا شکار ہونے والے لوگوں کو شکار نہ بنائیں اور انکے متعلق ’’کیسز‘‘ اور ’’وکٹمز‘‘ کا حوالہ دیکر بات نہ کریں۔ صحت کی دیکھ بال کرنے والے عملہ کے تئیں نرمی اور ہمدردی کا اظہار کئے جانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی آس پڑوس میں رہنے والے خاندانوں کے ساتھ بھی بلکہ انفکشن لگنے کے خوف سے کسی کے ساتھ بھی کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جانا چاہیئے۔ بلکہ جو لوگ اور خاندان سامنے رہتے ہوئے کووِڈ-19 کی وبا کے ساتھ نبردآزما ہیں اُنکی تعریفیں کی جانی چاہیئے اور اُنکا حوصلہ بڑھایا جانا چاہیئے کہ یہ بہادر ہی سامنے رہتے ہوئے اس مہلک بیماری کو ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک دوسرے کی مدد کرنے کے طریقے نکالنا خود ہمارے ہاتھ میں ہے، آس پڑوس کو بزرگ جوڑا رہتا ہو یا کوئی ہم سے بہت دور ہو ایک دوسرے کی اشیائے ضروریہ اور ادویات وغیرہ کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ ہم فقط زبانی خیریت پوچھ کر بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں ۔

ہم تالہ بندی کے دوران مندرجہ ذیل سادہ اقدامات کے ذریعہ اپنی اور دیگروں کی مدد کرسکتے ہیں:

1. جُڑے رہیں: گھر بیٹھیں اور فیملی و دوستوں کے ساتھ فون اور ویڈیو کالز کے ذریعہ جُڑے رہیں۔ اُن لوگوں کے ساتھ جن پر آپ بھروسہ کرتے ہیں، بات کریں اور اُنسے اپنے احساسات کے بارے میں بولئے اور یہ پوچھیئے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔

2. دباؤ میں ڈالنے والی باتوں سے دور رہیں: کووِڈ-19 کے بارے میں مسلسل خبریں سُنتے رہنے سے مایوسی آسکتی ہے، خبروں اور سوشل میڈیا سے کچھ دیر کیلئے رخصت لیا کریں، اسکرین کے ساتھ مسلسل نہ جُڑے رہیں۔ کووِڈ-19 سے ہلاک ہونے والوں کی بجائے اس بیماری میں ملوث ہونے کے بعد روبہ صحت ہونے والوں کے بارے میں زیادہ سوچیئے۔

3. اپنے معمولات پر قائم رہیں: جہاں تک ہوسکے اپنے روز مرہ کے معمول کو قائم رکھیں۔ وقت پر کھایئے اور وقت پر سوجایا کریئے۔ اُن کاموں میں مصروف رہیئے جن میں آپ کو مزہ آتا ہے۔ جو لوگ ابھی گھروں سے ہی کام کرتے ہیں ،کام کیلئے کوئی خاص جگہ مقررر کریئے اور اس پر قائم رہیئے۔ کام کا ایک وقت مقرر کیجئے اور کام ختم کرنے پر اس جگہ سے اُٹھ ر جایئے۔

4. تندرست رہیئے: روزانہ گھر پرہی ورزش کیجیئے، سانس لینے کی مشق کیلئے وقت نکالیئے یا مراقبہ کیجیئے۔ صحت افزاٗ کھایئے،شراب اور تمباکو سے پرہیز کیجیئے۔

5. سماجی خدمت (فاصلے سے): لوگوں کے کام آیئے۔ مشکل وقت میں مہربانی کا کوئی چھوٹا سا کام یا مدد فقط اُسی شخص کیلئے بڑی اہم نہیں ہے جسکی مدد کی جارہی ہو بلکہ خود مددگار کا بھی اس میں فائدہ ہے۔ آپ ہاؤسنگ والنٹئیر گروپ میں شامل ہوکر اُن بزرگوں کے کام آسکتے ہیں کہ جو گھروں میں تنہا رہتے ہیں۔

6. نشانے مقرر کیجیئے: تالہ بندی کے دورانیہ کیلئے اپنے لئے چھوٹے ہدف مقرر کیجیئے اور اُنہیں حاصل کرنے کی کوشش کیجیئے۔

7. اظہارِ تشکر کیجیئے:اپنے دن کی شروعات اور خاتمہ شکریہ کے ساتھ کیجیئے ، اُن سبھی چیزوں کو یاد کیجیئے کہ جنکے تئیں آپ زندگی میں شکر گذار ہیں۔ کووِڈ-19 کا سامنے سے مقابلہ کرنے والے صحت کی دیکھ بال کرنے والے کارکنوں اور اُنکے خاندانوں کے تئیں احساسِ تشکر پیدا کیجیئے۔

اور آخر پر کیوں نہ ہم خود کو یاد دلائیں کہ ’’یہ وقت بھی گذر جائے گا‘‘ یا ’’میں اس صورتحال کو سنبھال سکتا ہوں‘‘ اور ہم وقتِ ضرورت ماہرینِ نفسیات سے مدد لینے میں ہچکچائیں گے نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ مدد دستیاب ہے!

نفسیاتی مسائل میں مدد کیلئے نمبرات:

سرکار کا مفت نمبر از نیشنل انسٹیچیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس(این آئی ایم ایچ اے این ایس)- 080 – 46110007

سنٹرل انسٹیچیوٹ آف سائکیاٹری (سی آئی پی)- 0651-2451115/119

کرائسز سپورٹ اینڈ کونسلنگ سنٹر،(آئی ایچ بی اے ایس) - 011-22574820

کنٹریبیوٹڑ:

ڈاکٹر شلپا سدانند، ماہرِ نفسیات

ایسسٹنٹ پروفیسر،انڈین انسٹیچیوٹ آف پبلک ہیلتھ- حیدرآباد

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.