محنت اور روزگار کےمرکزی وزیر سنتوش کمار گنگوار نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ بچہ مزدوری ، مختلف سماجی و اقتصادی مسائل جیسے غربت، اقتصادی پسماندگی اور ناخواندگی کا نتیجہ ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے بچہ مزدوری (روک تھام، پابندی اور ریگولیشن ) ایکٹ 1986 میں ترمیم کی ہے اور چائلڈ ایکٹ (روک تھام ؍ پابندی اور ریگولیشن) ترمیمی ایکٹ-2016 پر عمل شروع ہو گیا ہے۔جس کا نفاذ یکم ستمبر 2016 کو عمل میں آیا تھا۔
یہ ترمیمی قانون 14 برس سے کم عمر کے بچوں کو کسی بھی کام یا روزگار میں لگانے پر مکمل طور پر پابندی عائد کرتا ہے جبکہ 14 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کو خطرناک پیشوں اور پروسیسیز میں کام کرنے کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
اس قانون میں دی گئی تجاویز کے مطابق جو بھی کمپنی یا آجر کسی بچے کو کام پر لگاتا ہے یا کسی بچے کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے تو وہ سزا کے لائق ہوگا۔ اور یہ سزا کم از کم 6 ماہ کی قید ہو سکتی ہے لیکن اس قید کو 2 برس تک بڑھایا جا سکتا ہے، یا اس پر کم از کم 20 ہزار کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہےاور اس میں توسیع کر کے 50 روپئے تک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، یا دیگر صورت میں جرمانہ اور قید دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ اگر کسی نو خیز عمر ( 14سے 18 برس) کے بچوں کو کام پر رکھا جاتا ہے تو آجر کم از کم 6 ماہ کی قید کی سزا کا مرتکب ہوگا اور سزا کو دو سال کی مدت تک بڑھا یا جا سکتا ہے یا اس پر کم از کم 20 ہزا روپئے کا جرمانہ اور جرمانے کی رقم میں اضافہ کر کے 50 ہزار تک کیا جا سکتا ہے، یا دونوں سزائیں یعنی قید اور جرمانہ دونوں عائد کئے جا سکتے ہیں۔
ابتدا میں اس قانون کے نفاذ کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی تھی۔
مزید پڑھیں : 'بچے ملک کے مستقبل ہیں اسی لیے ہر بچہ ضروری ہے'
محنت اور روزگار کےمرکزی وزیر سنتوش کمار گنگوار کے مطابق 'سنہ 2018 میں ریاستی حکومتیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعے موصولہ اطلاعات کے مطابق کل 338696 معائنے اور جانچ کئے گئے۔ ان میں سے 1636 معاملے حکم عدولی کے سامنے آئے۔ ان میں سے 1168 معاملات کے خلاف مقدمے دائر کئے گئے ۔
سنہ 2018 کے دوران 690 معاملات میں سزا سنائی گئی ۔
بچوں کو زبردستی کام پر مجبور کرنے کی وجوہات:
- غربت
- بچوں پر خاندان کی معاشی ذمہ داری کا بوج
- خاندانی تنازعات
- تعلیم کی کمی
- ہجرت
- بچوں کی غیرقانونی اسمگلنگ