اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ ٹولپ فلاور یعنی گل لالہ کہاں سے آیا تو شاید آپ کا پہلا اور آخری جواب ہالینڈ ہو گا، ہالینڈ کو پھولوں اور بالخصوص گل لالہ کی کاشت کے لیے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹولپ خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکی سے یورپ پہنچا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے مرکز 'ترکی' میں گل لالہ کی کاشت کی جاتی تھی اور یہیں سے سولہویں صدی میں انہیں ہالینڈ درآمد کیا گیا تھا۔
گل لالہ کی باغبانی نے ہالینڈ کی سر زمین کو قوس و قزح کی رنگیناں عطا کی ہیں۔ یہاں کا سب سے مشہور پھول بھی گل لالہ ہی ہے۔
ہالینڈ کے لاکھوں ہیکٹر زمین پر اس کی کاشت ہوتی ہے اور تا حد نگاہ آپ کو سرخ، قرزنی، رغوانی، سفید، نیلے اور پیلے رنگوں کے پھولوں سے زمین لالہ زار نظر آئے گی۔
کوکین ہوف ہالینڈ میں گل لالہ کا سب سے بڑا باغ ہے جہاں ہر برس 70 لاکھ گل لالہ کی کلیاں اور شگوفے پھوٹے ہیں۔
عالمی سطح پر ہالینڈ سب سے زیادہ ٹولیپ فلاور برآمد کرنے والا ملک ہے۔
پرتگال کے دور عروج میں اس پھول کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ انہیں پینٹنگز اور تہواروں میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔
سترہویں صدی کے وسط میں یورپ میں یہ اتنا مقبول ہوا کہ تجارت کی غرض سے اس کی کاشت کے لیے پہلا فارم ہاوس قائم کیا گیا جو'ٹولپ مینیا ' کے طور پر مشہور ہوا۔
علامہ اقبال نے بھی گل لالہ کو اپنی شاعری میں بطور اصطلاح اور استعا رے کے استعمال کیا ہے۔
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لالہٰ الا اللہ !
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہووہ شبنم!
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
اگر آپ کے پاس وقت اور پیسے ہیں تو ایک بار ہالینڈ میں گل لالہ کے باغوں کی سیر ضرور کر یں اور اگر آپ سائیکل چلانا جانتے ہیں تو ان باغوں کے درمیان سے گزرتے وقت آ پ کیف و سرور کی کیفیت محسوس کریں گے۔
تا حد نگاہ گلوں کی جلوہ فروشیاں آپ کے دل و دماغ میں فرحت و مسرت کی ایسی کیفیت پیدا کریں گی کہ آپ تھکان اور ذہنی تناؤ بھول بیٹھیں گے۔