ETV Bharat / bharat

جونپور میں 'مسجد لال دروازہ' کی تاریخی حیثیت

جونپور میں مسجد لال دروازہ کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی ک بیٹے محمود شاہ شرقی کی بیوی راجے بی بی نے 860ھ میں اپنے پیرومرشد سید علی داؤد کے لئے کروائی تھی سید علی داؤد عربی النسل تھے جو اس وقت بادشاہ کی خاص درخواست پر ملک عرب سے جونپور تشریف لائے تھے

sdf
sdf
author img

By

Published : Oct 25, 2020, 7:17 PM IST

یوں تو اترپردیش میں جونپور شہر تاریخ کے اہم اوراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے یہاں پر شرقیوں اور مغلوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور اس شہر کو دارالخلافہ بھی کہا جاتا تھا اس شہر کو شیراز ہند کا لقب بھی دیا گیا اس شہر میں بے شمار علماء ومشائخ بھی پیدا ہوئے اور بیشتر نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا شرقی دور میں بے شمار عمارتوں کی تعمیر وجود میں آئی ان میں سے کچھ تو آج بھی اپنی قدیمی تہذیب کے ساتھ موجود ہیں اور بیشتر اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہی ہیں۔

ویڈیو

انہیں میں سے ایک عمارت 'مسجد راجے بی بی' ہے جس کا قدیمی نام 'نماز گاہ' تھا۔ اس مسجد کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی کے بیٹے محمود شاہ شرقی کی بیوی راجے بی بی نے سنہ 860ھ میں اپنے پیر و مرشد سید علی داؤد کے لئے کروائی تھی سید علی داؤد عربی النسل تھے جو اس وقت بادشاہ کی خاص درخواست پر ملک عرب سے جونپور تشریف لائے تھے۔ سلطان و ملکہ سید علی داؤد سے بہت عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ سید علی داؤد کی مزار مبارک موضع سید علی پور میں واقع ہے، جو اب عوام میں سدلی پور کے نام سے معروف ہے۔

مسجد کے جنوبی سمت میں سید علی داؤد کی خانقاہ تھی تو مسجد کے شمال میں مدرسہ تھا اور اسی سے متصل ایک لعل محل بنا ہوا تھا، جس میں سرخ پتھر لگائے گئے تھے اس کے سبب دور جدید میں یہ جگہ لال دروازہ کے نام سے معروف ہو گئی۔ گذرتے دور کے ساتھ خانقاہ اور محل کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا۔ یہ مسجد شہر سے تقریباً تین،چار کلومیٹر کے فاصلے پر محلہ بیگم گنج میں ملہنی روڈ پر واقع ہے۔

یہ مسجد دیگر شرقی مسجدوں کے مقابل چھوٹی ہے اس کا باہری رقبہ 212 فٹ× 188 فٹ ہے اگر چہ اسکا طرز دوسری شرقی مسجدوں کی طرح ہے مگر مغربی دیوار کی جسامت کم ہے، جس پر گنبد کا بہت بڑا وزن ہے۔ حسین جھنجھریاں و جالیاں اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔ اس مسجد میں بھی تین دروازے ہیں اور مسجد کا صحن کافی وسیع و عریض ہے۔

مسجد کے مرکزی محراب میں سنگِ موسیٰ پر کلمہ طیبہ 'لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ' ابھرا ہوا ہے جس کا خط بے حد لاجواب ہے اور خط نسخ میں ایک جدت ہے مرکزی محراب کو ڈھانکنے والی چادر بہت حسین ہے اندرونی محراب پر آیت الکرسی اور قرآن کی دوسری آیت ابھری ہوئی ہے اس کا خط بہت ہی شاندار اور اپنی مثال آپ ہے۔ اس مسجد میں عورتوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مؤرخ عرفان جونپوری نے کہا کہ یہ مسجد علم دوست، دور اندیش اور محمود شاہ شرقی کی اہلیہ راضیہ بی بی عرف راجے بی بی کی تعمیر کردہ ہے۔ یہ مسجد بڑی نفاست و نزاکت اور فن تعمیر کے لحاظ سے منفرد شناخت رکھتی ہے یہ لال دروازہ مسجد فن تعمیر، فن خطاطی، نقش و نگار کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے اور اس مسجد کے متعلق بہت سی بے بنیادی باتیں عوام میں رائج ہیں۔

حالیہ دنوں میں اس مسجد سے متصل جامعہ حسینہ لال دروازہ کے نام سے ایک مدرسہ چل رہا ہے، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے دینیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مسجد پنج وقتہ نمازیوں سے آباد ہے۔

یوں تو اترپردیش میں جونپور شہر تاریخ کے اہم اوراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے یہاں پر شرقیوں اور مغلوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور اس شہر کو دارالخلافہ بھی کہا جاتا تھا اس شہر کو شیراز ہند کا لقب بھی دیا گیا اس شہر میں بے شمار علماء ومشائخ بھی پیدا ہوئے اور بیشتر نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا شرقی دور میں بے شمار عمارتوں کی تعمیر وجود میں آئی ان میں سے کچھ تو آج بھی اپنی قدیمی تہذیب کے ساتھ موجود ہیں اور بیشتر اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہی ہیں۔

ویڈیو

انہیں میں سے ایک عمارت 'مسجد راجے بی بی' ہے جس کا قدیمی نام 'نماز گاہ' تھا۔ اس مسجد کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی کے بیٹے محمود شاہ شرقی کی بیوی راجے بی بی نے سنہ 860ھ میں اپنے پیر و مرشد سید علی داؤد کے لئے کروائی تھی سید علی داؤد عربی النسل تھے جو اس وقت بادشاہ کی خاص درخواست پر ملک عرب سے جونپور تشریف لائے تھے۔ سلطان و ملکہ سید علی داؤد سے بہت عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ سید علی داؤد کی مزار مبارک موضع سید علی پور میں واقع ہے، جو اب عوام میں سدلی پور کے نام سے معروف ہے۔

مسجد کے جنوبی سمت میں سید علی داؤد کی خانقاہ تھی تو مسجد کے شمال میں مدرسہ تھا اور اسی سے متصل ایک لعل محل بنا ہوا تھا، جس میں سرخ پتھر لگائے گئے تھے اس کے سبب دور جدید میں یہ جگہ لال دروازہ کے نام سے معروف ہو گئی۔ گذرتے دور کے ساتھ خانقاہ اور محل کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا۔ یہ مسجد شہر سے تقریباً تین،چار کلومیٹر کے فاصلے پر محلہ بیگم گنج میں ملہنی روڈ پر واقع ہے۔

یہ مسجد دیگر شرقی مسجدوں کے مقابل چھوٹی ہے اس کا باہری رقبہ 212 فٹ× 188 فٹ ہے اگر چہ اسکا طرز دوسری شرقی مسجدوں کی طرح ہے مگر مغربی دیوار کی جسامت کم ہے، جس پر گنبد کا بہت بڑا وزن ہے۔ حسین جھنجھریاں و جالیاں اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔ اس مسجد میں بھی تین دروازے ہیں اور مسجد کا صحن کافی وسیع و عریض ہے۔

مسجد کے مرکزی محراب میں سنگِ موسیٰ پر کلمہ طیبہ 'لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ' ابھرا ہوا ہے جس کا خط بے حد لاجواب ہے اور خط نسخ میں ایک جدت ہے مرکزی محراب کو ڈھانکنے والی چادر بہت حسین ہے اندرونی محراب پر آیت الکرسی اور قرآن کی دوسری آیت ابھری ہوئی ہے اس کا خط بہت ہی شاندار اور اپنی مثال آپ ہے۔ اس مسجد میں عورتوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مؤرخ عرفان جونپوری نے کہا کہ یہ مسجد علم دوست، دور اندیش اور محمود شاہ شرقی کی اہلیہ راضیہ بی بی عرف راجے بی بی کی تعمیر کردہ ہے۔ یہ مسجد بڑی نفاست و نزاکت اور فن تعمیر کے لحاظ سے منفرد شناخت رکھتی ہے یہ لال دروازہ مسجد فن تعمیر، فن خطاطی، نقش و نگار کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے اور اس مسجد کے متعلق بہت سی بے بنیادی باتیں عوام میں رائج ہیں۔

حالیہ دنوں میں اس مسجد سے متصل جامعہ حسینہ لال دروازہ کے نام سے ایک مدرسہ چل رہا ہے، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے دینیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مسجد پنج وقتہ نمازیوں سے آباد ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.