الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں آج اترپردیش کے ہاتھرس اجتماعی جنسی تشدد کیس کی سماعت ہوگی۔
سخت سیکیورٹی کے درمیان متاثرہ کے اہل خانہ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ عدالت نے حکومت اور پولیس کے تمام اعلی عہدیداروں کو بھی طلب کیا ہے، جن پر اس کیس میں غفلت برتنے کا الزام ہے۔
متاثرہ کے اہل خانہ کو سخت حفاظتی دستے کے درمیان لکھنؤ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں- اس سے قبل پولیس کی انہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے بلگڑھی گاؤں پہنچی۔
حالانکہ اہل خانہ کو اتوار کو ہی لکھنؤ لے جانے کی تیاری تھی لیکن اہل خانہ نے رات میں سیکیورٹی کا حوالہ دیکر جانے سے انکار کر دیا جس کے بعد پولیس آج صبح انہیں لے کر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوئی۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق متاثرہ خاندان سے پانچ افراد سی او اور مجسٹریٹ کی نگرانی میں عدالت میں پیش ہوں گے اور اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔ لکھنؤ جانے والوں میں متاثرہ کے والدین دو بھائی سمیت اس کی بھابھی شامل ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے یکم اکتوبر کو واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا، ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد یوگی حکومت حرکت میں آئی اور اہل خانہ کو سیکیورٹی فراہم کی گئی۔
اہل خانہ کی حفاظت کے لیے تقریبا 60 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور گھر کے چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ گھرآنے جانے والے ہر فرد کی کڑٰ نگرانی کی جا رہی ہے۔
ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سماعت کے دوران ایڈیشنل چیف ہوم سکریٹری، ڈی جی پی ہتیش چندر اوستی، اے ڈی جی لاء اینڈ آرڈر پرشانت کمار کے علاوہ ہاتھرس کے ڈی ایم پروین کمار اور ایس پی وکرانت ویر کو طلب کیا ہے۔
ہاتھرس کیس میں جس طرح سے پولیس کارروائی پر سوال کھڑے کیے گئے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہے کہ ہاتھرس پولیس اور یوگی حکومت کو عدالت میں بہت سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔